بجلی کی قیمت میں اضافہ بعد میں

279

نئے پاکستان کی نئی حکومت نے عوام پر ترس کھاتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ ایک ہفتے کے لیے موخر کر دیا ہے۔یعنی یہ اضافہ ہو کر رہے گا ، اب نہیں تو ایک ہفتے بعد سہی ۔ گیس کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ تو مسلط ہو ہی چکا ہے لیکن گزشتہ منگل کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں پرانی حکومتوں کا یہ دعویٰ بھی دہرایا گیا کہ گردشی قرضے عوام سے وصول نہیں کیے جائیں گے اور اضافے کا بوجھ غریبوں اور صنعتوں پر نہیں ڈالا جائے گا ۔ پرانے پاکستان کی حکومتیں بھی ہر بار بجٹ پیش کر کے یہ کہتی رہی ہیں کہ عوام متاثر نہیں ہوں گے ، غریبوں پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا ۔ جانے ایسے غریب کہاں بستے ہیں جو ہر بجٹ کے بعد مہنگائی بڑھنے سے کسی طرح متاثر نہیں ہوتے اور عوام بھی بغلیں بجاتے پھرتے ہیں ۔ ان کے لیے بجٹ میں بظاہر کوئی پریشانی نہ ہو لیکن آخر کار بوجھ انہی پر پڑتا ہے ۔ نئے پاکستان کے جس ضمنی بجٹ کا اعلان ہوا ہے اس کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہونا ہے لیکن اعلان ہوتے ہی کئی اشیاء کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں ۔ حکومت کے پاس قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا کوئی نظام ہی نہیں ہے چنانچہ تاجر طبقہ من مانی کرتا ہے ۔ جو اضافی رقم وصول کی جاتی ہے وہ حکومت کے خزانے میں نہیں پہنچتی ، اس کے لیے یکم اکتوبر کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ یہ تماشا ہر بار ہوتا ہے ۔ حکومتوں کو چاہیے کہ یا تو جس دن اعلان ہو اسی دن نئی قیمتوں کا اطلاق کر دیا جائے یا مقررہ تاریخ سے پہلے قیمت بڑھانے والوں سے سختی سے نمٹا جائے ۔ مگر یہ کام وہ کر نہیں سکتی ۔ کہا گیا ہے کہ اضافے کا بوجھ صنعتوں پر نہیں ڈالا جائے گا ۔ یہ ایک مذاق ہے ۔ گیس کی قیمت میں اضافے کا بوجھ تو صنعتوں پر پڑ ہی چکا ہے ۔