چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار نے لاہور میں بل بورڈ اتارنے سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ ہاؤسنگ اسکیمیں بنانا فوج کا کام نہیں۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا دنیا میں کسی اور ملک کی فوج (بھی) کاروبار کرتی ہے؟ انہوں نے ایک اور سوال اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ فوج سے متعلق ادارے جو اربوں روپے کماتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں۔ (روزنامہ جسارت۔ 5 ستمبر 2018)
پوری انسانی تاریخ میں فوج کا پہلا اور آخری کام ملک و قوم کا دفاع رہا ہے۔ اس کے سوا فوج پر کسی اور چیز کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک و قوم کا دفاع مذاق نہیں۔ اس کام پر پوری زندگی اور پوری توانائی صرف ہوجاتی ہے۔ ملک و قوم کا دفاع اتنا اہم ہے کہ ہندو ازم نے ایک شتریہ کے نام سے ایک خاص طبقہ یا warrior class پیدا کی۔ راجپوت یا راج کے بیٹے بھی اپنی بہادری اور عسکری استعداد کے حوالے سے ہمیشہ ریاست کو عزیز رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں سیّدنا عمرؓ سے پہلے تنخواہ دار فوج یا Standing Army کا کوئی تصور موجود نہیں تھا لیکن سیّدنا عمرؓ نے فوج کے ادارے کو نئی صورت عطا کی۔ سیّدنا عمرؓ سے قبل مجاہدوں یا فوجیوں میں مال غنیمت تقسیم ہوتا تھا۔ سیّدنا عمرؓ کے عہد میں فتوحات کے انبار لگ گئے۔ چناں چہ سیّدنا عمرؓ سے مطالبہ کیا گیا کہ فتح کی ہوئی زمینیں مال غنیمت کی حیثیت سے فوجیوں میں تقسیم کردی جائیں مگر سیّدنا عمرؓ نے اجتہاد کرتے ہوئے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان زمینوں پر مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کا استحقاق ہے۔ سیّدنا عمرؓ ایسا نہ کرتے تو اسلامی تاریخ کے آغاز ہی میں فوجی جاگیرداریاں وجود میں آجاتیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیّدنا عمرؓ نے فوج کو کاروباری ادارہ بننے سے بچالیا۔
اسلامی تاریخ کے بارے میں معمولی علم رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ سیّدنا خالد بن ولید ایک عظیم سپہ سالار تھے۔ انہیں رسول اکرمؐ نے ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ایک دن سیّدنا عمرؓ کو اطلاع ملی کہ سیّدنا خالد بن ولیدؓ شاندار لباس زیب بن کیے ہوئے گھوڑے پر سوار ہیں۔ یہ سن کر سیّدنا عمرؓ خود موقع پر پہنچے اور سیّدنا خالد بن ولیدؓ سے فرمایا کہ تم میری زندگی ہی میں خراب ہوگئے۔ سیّدنا خالد بن ولید سمجھ گئے کہ سیّدنا عمرؓ کیا کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے سیّدناعمرؓ کا تبصرہ سن کر کہا تو یہ کہا کہ میرا لباس ضرور نیا ہے مگر تلوار پرانی ہے۔ یعنی میرے عمدہ لباس نے میرے جذبہ جہاد پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا۔ سیّدنا عمرؓ کے زمانے میں جو فتوحات ہوئیں ان میں سیّدنا خالد بن ولید کا کردار مرکزی تھا۔ چناں چہ اسلامی لشکر کی فتوحات اور خالد بن ولید ہم معنی ہوگئے۔ سیّدنا عمرؓ نے یہ دیکھا تو بہ یک جنبش قلم سیّدنا خالد بن ولیدؓ کو معزول کردیا۔ صحابہؓ نے یہ دیکھ کر سیّدنا عمرؓ سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا۔ اس سے اسلامی لشکر پر بددلی پھیلے گی مگر سیّدنا عمرؓ نے کسی کی بات نہ سُنی۔ انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ اسلامی لشکر کی فتوحات کا سبب خالد نہیں اسلام ہے۔ اس صورتِ حال سے ایک سطح پر یہ معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست میں بالادستی سول قیادت کی ہونی چاہیے۔ دوسری سطح پر اس سے ظاہر ہوا کہ اسلامی ریاست میں اصل مسئلہ سول بالادستی بھی نہیں اصل مسئلہ اسلام کی بالادستی ہے اور اسلام میں فوج کا ادارہ کسی صورت میں کاروبار نہیں کرسکتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ خلیفہ بننے سے پہلے سیّدنا ابوبکرؓ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ خلیفہ بننے کے اگلے دن وہ اپنا کپڑا فروخت کرنے کے لیے نکلے تو سیّدنا عمرؓ نے دیکھ لیا۔ پوچھا کہاں کا قصد ہے؟ سیّدنا ابوبکرؓ نے فرمایا کہ رزق کی تلاش میں نکلا ہوں۔ سیّدنا عمرؓ نے کہا کہ پھر حکومت کون دیکھے گا۔ قصہ کوتاہ سیّدنا ابوبکرؓ کو کاروبار سے روک دیا گیا اور ان کا مشاہرہ، تنخواہ مقرر کردی گئی۔ ظاہر ہے کہ اگر ملک کا سربراہ کاروبار نہیں کرسکتا تو فوج کہاں سے کاروبار کرے گی؟۔
جدید غیر مسلم ریاستوں کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں مگر اتنی بات کافر اور مشرک بھی سمجھتے ہیں کہ فوج کا کام دفاع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چناں چہ امریکا اور یورپ میں جرنیلوں اور فوجیوں کو خواہ کتنی ہی تنخواہ یا مراعات کیوں نہ دی جاتی ہوں مگر فوج بحیثیت ایک ادارے کے کاروبار نہیں کرسکتی۔ نہ ہی امریکا اور یورپ یا دنیا کے کسی سیکولر ملک میں اعلیٰ فوجی اہلکاروں پر رہائشی پلاٹوں کی بارش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو فوج کاروبار کرے گی وہ جنگ لڑنے کے قابل نہیں رہے گی۔ تاجروں کا بنیادی مفاد ’’امن‘‘ ہے۔ کیوں کہ جنگ سے ان کا کاروبار تباہ ہو جاتا ہے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ چاہے جنگ کتنی ہی ناپسندیدہ چیز کیوں نہ ہو مگر بسا اوقات جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو جرنیل کاروبار کررہے ہوں وہ جنگ کریں گے یا جنگ سے بھاگیں گے؟ جنگ بُری چیز ہوگی مگر جو جو امن کاروباری مفادات سے نمودار ہورہا ہو وہ جنگ سے ہزار گنا بدتر ہے۔ اقبال نے کہا ہے کہ قوم اور قوموں کی امامت اتنی بڑی چیز ہے کہ اسے ’’دو رکعت کے امام‘‘ نہیں سمجھ سکتے۔ دیکھا جائے تو اقبال نے بالکل درست فرمایا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر قوموں اور ان کی امامت کی معنویت دو رکعت کے امام نہیں سمجھ سکتے تو کاروبار کرنے والے جرنیل اور میاں نواز شریف اور آصف زرداری جیسے کاروباری اور بدعنوان کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔
بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں نے فوج کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں ہی کی نہیں ہر طرح کے کاروبار کی چاٹ لگادی ہے۔ جرنیل کہیں بینک چلارہے ہیں، کہیں فوجی کھاد فروخت کررہے ہیں، کہیں منرل واٹر بیچ رہے ہیں۔ حالات یہی رہے تو عسکری نکاح خواں اور فوجی گورکن بھی پیدا ہوجائیں گے۔ فوجی سیاست دان، عسکری صحافی، فوجی علما تو پہلے ہی بازار میں موجود ہیں۔ اس حوالے سے صورتِ حال اتنی مخدوش ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس بھی اس سلسلے میں لب کشائی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مگر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چیف جسٹس اس طرح کی باتیں اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کرتے ہیں کہ وہ آزاد نہیں ہیں بلکہ ان پر اسٹیبلشمنٹ کا سایہ ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کو بھارت جیسا پڑوسی ملا ہے۔ کہنے کو بھارت ایک ملک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت پورے خطے کے لیے ایک بلا اور ایک عذاب ہے۔ وہ 1962ء میں چین سے جنگ لڑ چکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے یہ جنگ اس وقت لڑی جب بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ’’چینی ہندی بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ لگارہے تھے۔ بھارت پاکستان سے تین جنگیں لڑچکا ہے اور پاکستان کو دولخت کرنے میں اس کا کردار اہم تھا۔ بھارت سری لنکا کی خانہ جنگی کا مرکزی کردار تھا۔ اسی لیے ایک تامل عورت نے خودکش حملہ کرکے راجیو گاندھی کو قتل کیا۔ مالدیپ چھوٹی سی ریاست ہے مگر بھارت اسے بھی چین سے نہیں رہنے دیتا۔ نیپال ہندو ریاست ہے مگر بھارت کبھی اس کو تیل مہیا کرنے سے انکار کردیتا ہے اور کبھی کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ بنگلا دیش بھارت کی تخلیق ہے مگر بھارت نے اسے اپنے دوست کے بجائے ’’اپنی کالونی‘‘ بنالیا ہے اور بنگلادیش میں بھارت اور اس کی ایجنٹ حسینہ واجد کے خلاف نفرت کا آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کا قصہ ہی کچھ اور ہے۔ بھارت آدھا پاکستان کھا چکا ہے اور باقی آدھے کو کھا جانا چاہتا ہے۔ چناں چہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور دیگر کاروباری سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی ذہنیت قومی سلامتی کے لیے ایک بہت ہی بڑا خطرہ ہے۔ نالائق اور Stunted ذہن کے حامل دانش ور اور صحافی اس خیال کو عام کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ فوج کی اصل قوت پیشہ ورانہ اہلیت ہے اور یہ اہلیت ہماری فوج کے پاس موجود ہے۔ بلاشبہ پیشہ ورانہ اہلیت اہم ہے مگر اس سے ہزار گنا اہم فوجیوں کا نظریہ اور جذبہ ہے۔ سوویت یونین کی فوج کے پاس پیشہ ورانہ اہلیت کی کمی نہ تھی۔ وہ دنیا کی دوسری بڑی فوج تھی مگر وہ افغان مجاہدین کے نظریے اور جذبے سے بُری طرح پٹ گئی۔ امریکا وقت کی واحد سپر پاور ہے۔ اس کے فوجیوں کی پیشہ ورانہ اہلیت بے مثال ہے۔ امریکا کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ ہے مگر اس کے باوجود وہ افغانستان میں ان مجاہدین سے شکست کھا گئی ہے جن کے پاس مناسب ہتھیار بھی نہیں۔ 1965ء میں ہمارے پاس بہت کم اسلحہ تھا اور ہماری پیشہ ورانہ اہلیت ہندوستان سے زیادہ بہتر نہ تھی مگر اس کے باوجود ہماری فوج نے اچھی جنگ لڑ کر دکھائی۔ اس کی وجہ ہمارے فوجیوں کا وہ شوق شہادت تھا جو ان کے نظریے سے نمودار ہوا تھا۔ 1971ء میں ہمارے پاس اس جذبے کی کمی، چناں چہ ہم مشرقی پاکستان کو بھی نہ سنبھال سکے اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی وہ ناقابل بیان ذلت بھی سہی جو آج تک قوم کے دل میں کانٹا بن کر چبھتی ہے۔ اس سال 6 ستمبر کی تقریب میں جنرل باجوہ نے ایک اچھی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ جو قومیں اپنے شہدا کو بھول جاتی ہیں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے مگر شہیدوں کو شہادت کے منصب پر فائز کرنے والا نظریہ شہیدوں سے بھی زیادہ اہم ہے۔ جو قومیں نظریے کو بھول جاتی ہیں وہ مٹ کر رہتی ہیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ کاروباری ذہنیت ملک کی سلامتی کے لیے ہی نہیں نظریے کے لیے بھی زہر ہے۔