پاکستانی ٹیم کی شرمناک کارکردگی

221

پاکستانی شاہینوں کے پر بری طرح جھڑ گئے۔ ایشیا کپ کرکٹ کے مقابلوں میں پے درپے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا لگتا تھا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ہر کھلاڑی نہ کھیلنے کا عزم لے کر میدان میں اترا ہے۔ کسی بھی مقابلے میں یہ ظاہر نہیں ہوا کہ ہمارے مایہ ناز کھلاڑی جیتنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اچھا کھیل پیش کرکے اور مقابلہ کرنے کے بعد ہار جانا افسوس ناک نہیں ہوتا لیکن یہاں تو مقابلے کی روح ہی عنقا تھی۔ بیٹنگ، بالنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں یہ شاہین کہلانے والے کنجشک فرومایہ نظر آتے تھے۔ اس پر مستزاد ذرائع ابلاغ کے یہ نعرے کہ ’’شاہین جھپٹنے کو تیار‘‘۔ اور شاہین کہیں دبک گئے۔ اگر کوئی جاندار مقابلہ کرکے ہارے تو یہ اطمینان دلایا جاسکتا ہے کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔ جیتنے اور جم کر مقابلہ کرنے کا جذبہ افغانستان کی نو آموز ٹیم میں نظر آیا جس نے بھارت کی مضبوط ٹیم سے بھی مقابلہ برابر کردیا۔ بڑے معروف بلے باز بھی 6 مقابلوں میں مجموعی طور پر کسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے اور آندھی کی زد میں آئے ہوئے پتوں کی طرح اڑتے پھرے۔ صرف بالر جنید نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بھارت کے ہاتھوں دوسرے مقابلے میں تو نہایت شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے دو اوپنر ہی اڑ گئے۔ ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ نے فائنل میں پہنچنے کی آخری امید بنگلا دیش سے جیت تھی لیکن گزشتہ بدھ کو اس مقابلے میں پاکستانی بلے باز ’’تو چل میں آیا‘‘ پر عمل پیرا رہے۔ جنید خان کی عمدہ بالنگ کی وجہ سے بنگلا دیش صرف 239 رنز تک محدود رہا۔ یہ ایسا اسکور نہیں تھا جسے حاصل نہ کیا جاسکتا مگر کوئی جم کر کھیلا ہی نہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ پاکستان بھارت سے تیسری مرتبہ شکست کھانے سے بچ گیا۔ کچھ ہی عرصہ پہلے تک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ٹیم گرد کارواں کی طرح بیٹھ گئی۔ اس شرمناک کارکردگی کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔ کیا اس کی وجہ کرکٹ بورڈ میں انتظامی تبدیلیاں ہیں یا کچھ اور۔ لیکن بورڈ میں تو ایک ہی تبدیلی احسان مانی کی آئی ہے باقی تو سب وہی ہیں۔ ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے بالر جنید خان کو ایک طرف بٹھا دیا تھا لیکن انہوں نے بنگلا دیش سے مقابلے میں 19 رنز دے کر چار وکٹیں لے کر اپنے انتخاب کو درست ثابت کردیا۔ ورلڈ کپ سے پہلے ان پے درپے شکستوں سے ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ کمزوریاں واضح ہوگئی ہیں۔ انہیں دور کرکے ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی کی امید کی جاسکتی ہے۔ افغان ٹیم کے کپتان اصغر خان نے درست کہا ہے کہ ان کی ٹیم ورلڈ کپ میں تمام ٹیموں کے لیے خطرہ ثابت ہوگی۔ یہ بھی یاد رہے کہ افغان ٹیم کی کوچنگ پاکستانی کرکٹرز کرتے رہے ہیں۔