قرض کی مے اور ہماری قومی فاقہ مستی

368

 

 

جاں بہ لب ملکی معیشت کو زندگی کی خیرات کے طور پر آئی ایم ایف سے قرض کی ایک اور قسط کے لیے رجوع کیا جائے یا گریز کیا جائے؟ حکومت اس حوالے سے ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک مخمصہ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ ایک طرف ملکی معیشت کو سہار ا دینے کے خواب، دعوے اور وعدے ہیں اور دوسری طرف حکومت کی جانِ ناتواں ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو ایسی ایمرجنسی کا سامنا نہیں کہ آئی ایم ایف سے رجوع کیا جائے۔ ہمیں بہتر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک میں سعودی سرمایہ کاری کے حجم کا تعین سعودی وفد کے دورہ پاکستان کے موقع پر اکتوبر میں ہوگا۔ انہوں نے ان خبروں کی تردید کی کہ سعودی سرمایہ کاری کا حجم دس ارب ڈالر ہوگا۔ وزیر خزانہ اسد عمر کی طرف سے ملکی معیشت کے حوالے سے ایمرجنسی نہ ہونے کی بات نے قوم کے اندر سکون اور اطمینان کی ایک لہر دوڑا دی تھی کہ اگلے ہی لمحے وزیر خزانہ نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنا یا نہ کرنا ایک کھلا آپشن ہے گویا کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اب آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے آپشن کا پلڑا بھاری ہوتا جارہا ہے اور کسی بھی لمحے قوم کو آئی ایم ایف کی ایک اور قسط کا بوجھ سہنا پڑے گا۔ یہ ہوا تو خواب دیکھنے والی قوم کو ایک بار پھر چچا غالب شدت سے یاد آئیں گے جو کہہ گئے ہیں
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اسد عمر کی طرف سے آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کے اشارے سے پہلے یہ تاثر عام تھا کہ جس رفتار سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آرہی ہے اس میں پاکستان کے پاس قرض کی ایک اور قسط لیے بغیر کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کے تیور پہلے ہی اچھے نہیں تھے اور امریکی جو اس عالمی مالیاتی ادارے پر گہرا اثر رکھتے ہیں کھلے لفظوں میں کہہ چکے تھے کہ چینی کمپنیوں کا قرض ادا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو قرض کی مخالفت کریں گے۔ اس وقت عملی صورت حال یہی ہے کہ پاکستان اپنے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لے رہا ہے اور یوں ایک گھن چکر ہے جس میں پاکستان کا عام آدمی مدت دراز سے پستا چلا آرہا ہے۔ اس دگرگوں صورت حال کا حل عارضی سہاروں اور مصنوعی اور نمائشی اقدامات میں تلاش کیا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے حکومت اصلی معیشت دانوں، ماہر نباضوں کے بجائے جادوگروں کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ جن کی مثال ہاتھ کے کرتب دکھانے والوں جیسی ہوتی جو وقتی طور کو اپنے اقدامات سے قوم کو ہپناٹائز کرتے ہیں۔ معیشت کی ڈوبتی اور ڈولتی سانسیں تیزی سے رواں ہو جاتی ہیں اور لوگ وقتی طور مطمئن ہو کر سڑکوں کا رخ نہیں کرتے اور جب وقت کا پردہ ڈھلک جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ معیشت کا استحکام محض فریب نظر تھا۔ ان مصنوعی اقدامات سے وقتی طور پر معاملات حکومت کی گرفت میں تو رہتے ہیں مگر قوم قرضوں کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ یوں ملکی معیشت کوسود در سود اور قرض در قرض کا لاحق مرض بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اب موجودہ حالات میں بھی پاکستان کے پاس دو راستے تھے جن میں پہلا اور روایتی راستہ ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دربار میں حاضری تھا اور دوسرا مشکل راستہ پیٹ پر پتھر باندھنا اور اپنے دوست ملکوں سے مدد طلب کرنا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور حل بھی اہم تھا جو ٹیکسوں کا دائرہ بڑھانے اور بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لانے سے تعلق رکھتا ہے مگر یہ ایک طویل المیعاد عمل ہے۔ اب پاکستان نے اگر آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو متبادل کیا ہے؟۔ تاحال واضح نہیں۔ فی الحال حکومت کی طرف سے پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا حل ہی سامنے نظر آرہا ہے۔ حکومت آہستہ روی سے اس حل پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ جس سے عام آدمی کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے حکومت پر مہنگائی بم گرانے کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے اگر ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنالیا تو پھر تو تبدیلی کا سارا مزہ پہلے مرحلے پر ہی کرکرہ ہو کر رہ جائے گا۔
چین اور سعودی عرب سے موجودہ صورت حال میں مدد ملنے کی امید ہے وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب کا دورہ کرآئے ہیں مگر فوری مدد کا کوئی اشار ہ نہیں ملا۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ چین کا اہم دورہ کر چکے ہیں اور چینی وزیر خارجہ پاکستان سے ہو کر گئے ہیں۔ تاحال چین کی طرف سے کوئی امدادی پیکیج ملنے کی خبر نہیں ملی مگر دونوں ملکوں نے پاکستان کو ایک اعتماد اور حوصلہ ضرور دیا ہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ پراعتماد ہو کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی معیشت کو ایمرجنسی کا سامنا نہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے سی پیک کا تیسرا شراکت دار بننا جہاں اس بڑی اقتصادی سرگرمی میں توازن پیدا کر ے گا وہیں اس سے ملکی معیشت کی بہتری کے در واہوں گے۔ آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کی بات پر وزیر خزانہ کے منہ میں گھی شکر مگر عوام کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے اور اس فیصلے کی ساری قیمت عوام سے وصول کرنا ایک غیر حکیمانہ فیصلہ ہوگا جس سے ہر ممکن حد تک گریز کیا جانا چاہیے۔