قرآن کہتا ہے کہ ’’اللہ کے نزدیک یہ بات بہت بُری ہے کہ تم جو کہو اس پر خود عمل نہ کرو، اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں جب ہم عمران خان حکومت کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو قول و فعل کے بھیانک تضاد پر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ کہاں یہ دعویٰ کہ میری حکومت میں صرف میرٹ کو بالادستی حاصل ہوگی، کوئی اقربا پروری، دوست نوازی یا سفارش نہیں چلے گی، جو لوگ کرپٹ ہیں اور کرپشن کے الزام میں مقدمات بھگت رہے ہیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ نیب کو زیادہ موثر اور بااختیار بنایا جائے گا اور اس کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی، لیکن جو کچھ ہورہا ہے اس دعوے کے بالکل برعکس ہے۔ وفاقی کابینہ تشکیل دی گئی تو اتحادی جماعتوں میں سے ایسے لوگ چنے گئے جو پہلے سے مالیاتی اسکینڈل اور کرپشن میں ملوث تھے۔ میڈیا نے اس پر توجہ بھی دلائی، کالم نگاروں نے پوری تفصیل سے ان کی کرپشن سے پردہ بھی اُٹھایا لیکن ’’پرنالہ وہیں کا وہیں رہا‘‘ اور وزیراعظم جو کرپشن سے بہت الرجک ہیں ان کے کان پر جُوں بھی نہ رینگی۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور انہیں اپنے ادارے کی کارکردگی سے آگاہ کیا تو اس کی بہت تحسین کی گئی لیکن جب نیب نے بعض اسکینڈلز میں وفاقی وزرا کو نوٹس جاری کیا تو سوائے بابر اعوان کے کسی نے اس کا جواب تک دینا گوارا نہ کیا۔ بابر اعوان نے تو مستعفی ہو کر اپنی عزت بچالی لیکن وزیر دفاع پرویز خٹک بدستور اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔ موصوف خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بدعنوانی کے اسکینڈل میں ملوث پائے گئے ہیں لیکن وہ وزیراعظم کے نو رتنوں میں شامل ہیں۔ اب تازہ نام زلفی بخاری کا سامنے آیا ہے جو عمران
خان کے قریبی دوست ہیں اور ایک مدت سے نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں اور شاید ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں بھی شامل ہے لیکن خان صاحب نے کمال چشم پوشی اور بے اعتنائی سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنا معاونِ خصوصی مقرر کرلیا ہے جس کا درجہ وزیر مملکت کے برابر ہوگا۔ اس پر بھی میڈیا میں بہت شور مچا ہے، ٹاک شوز منعقد ہوئے ہیں، اخبارات میں کالم لکھے گئے ہیں اور برملا کہا گیا ہے کہ عمران خان مسلم لیگ (ن) پر دوست نوازی کا جو الزام لگاتے تھے وہ خود بڑی ڈھٹائی سے اس کے مرتکب ہورہے ہیں لیکن مجال ہے کہ خان صاحب کی پیشانی عرق آلود ہوئی ہو۔
قارئین جانتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی اپنی وزارتِ عظمیٰ کے آخری دنوں میں اپنے ایک کاروباری دوست جہانگیر صدیقی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر تعینات کرگئے تھے جس پر بڑی تنقید
ہوئی تھی اور کہا گیا تھا کہ امریکا جیسے اہم ملک میں ایک تجزیہ کار کیریئر ڈپلومیٹ کی ضرورت ہے جو سفارت کاری کے تقاضوں اور اس کی مارکیٹوں کو سمجھتا ہو جب کہ اس شخص کا سفارت کاری سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پی ٹی آئی نے بھی اس تقرر پر کڑی تنقید کی تھی اور اسے دوست نوازی کا گھٹیا مظاہرہ قرار دیا تھا۔ مزید برآں یہ کہ یہ شخص نیب میں بھی نامزد تھا اور ایک مالیاتی اسکینڈل میں اس کے خلاف تحقیقات ہورہی تھیں۔ سفیر مقرر ہونے کے بعد بھی یہ تحقیقات جاری تھیں اور اسے نیب میں پیشی کے نوٹس جاری کیے جارہے تھے جب کہ عدالت میں بھی اس کے تقرر کے خلاف رٹ دائر ہوچکی تھی کہ اسی اثنا میں عام انتخابات کا ہنگامہ برپا ہوگیا اور یہ معاملہ پس منظر میں چلا گیا۔ اب عمران خان حکومت کی پہلی ذمے داری یہ تھی کہ وہ جہانگیر صدیقی کے تقرر کو منسوخ کرکے اس کی جگہ کسی سینئر سفارت کار کو امریکا میں تعینات کرتی اور دونوں ملکوں کے درمیان مستحکم سفارتی تعلقات کا احیا کرتی لیکن خان صاحب نے اقتدار کی باگ ڈور تو سنبھال لی البتہ یہ تقرر برقرار رہا۔ اب سنا ہے کہ کچھ دوستیاں اور رشتے داریاں نکل آئی ہیں جو اس تقرر کی منسوخی میں حائل ہیں اور پی ٹی آئی کے جو لوگ اس تقرر پر تنقید کررہے تھے وہی دورہ امریکا میں جہانگیر صدیقی کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔ لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر کا معاملہ اور بھی بگڑا ہوا ہے۔ یہ شخص پبلک تقریبات میں اوچھی حرکات کررہا ہے جس سے پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے لیکن شاید اس کا ’’کلاّ‘‘ بھی بہت مضبوط ہے اور کوئی اسے نہیں نکال سکتا۔
ایک شوشا یہ چھوڑا گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو روحانی تائید حاصل ہے، اسے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس کی تائید میں بشریٰ بی بی کے عمران سے عقد اور اسی سلسلے میں ایک خواب کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب عمران خان اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہمراہ عمرے پر گئے تو بشریٰ بی بی نے مدینہ پہنچتے ہی جوتے اُتار دیے، عمران نے حیران ہو کر پوچھا یہ کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تو پاکپتن کی بارگاہ میں بھی جوتے اُتار کر جاتی ہوں یہ تو سب سے بڑی سرکار ہے۔ میں یہاں کیسے یہ گستاخی کرسکتی ہوں۔ چناں چہ عمران خان بھی جوتے اُتار کر مدینہ النبیؐ میں داخل ہوئے اور میڈیا میں بھی اس کا چرچا ہوا۔ حالیہ دورہ سعودی عرب میں بھی خان نے بطور وزیراعظم یہی طرز عمل اپنایا۔ بلاشبہ یہ بڑا اعزاز ہے لیکن سرکار رسالت مآبؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کو اپنانا ہی سب سے بڑی سعادت ہے اور آپؐ قول و فعل میں تضاد کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ آپؐ کی سیرت اس تضاد سے بالکل پاک تھی۔ اب جو شخص اس تضاد میں مبتلا ہو اسے روحانی حمایت کیسے حاصل ہوسکتی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ
نہ دل بدلا، نہ دل کی آرزو بدلی نہ وہ بدلے
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں