ایوانوں میں بدزبانی

327

گزشتہ جمعرات کو قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں بظاہر معززارکان حکومت وارکان نے اپنی زبان درازی سے ایک ہنگامہ برپا کردیا۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بے لگام ہوگئے لیکن انہوں نے یہ کام پہلی بار نہیں کیا۔ ماضی میں وہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی رہے ہیں مگر اب وہ تحریک انصاف کے ترجمان ہیں اور ایک مبصر کے مطابق وہ اپنے کپتان کی اننگز کھیل رہے ہیں جو حکومت میں آنے سے پہلے مخالفین کو ’اوئے‘ کہہ کر خطاب کرتے رہے ، کسی کو یہودی اور کسی کو مولانا ڈیزل کہتے رہے ہیں۔صحبت کا اثر تو ضرور ہوتا ہے۔ چنانچہ فواد چودھری کی دریدہ دہنی باعث تعجب نہیں۔ بعض لوگ شائستگی کے ’ش‘سے بھی واقف نہیں ہوتے اور سمجھتے ہیں کہ جتنی بے ہودہ زبان استعمال کریں گے اتنا ہی چرچا ہوگا۔ فواد چودھری نے ایوان میں کھڑے ہوکر جو کچھ کہا اس پر پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے بڑا محتاط تبصرہ کیا ہے کہ میں فواد چودھری کو گھٹیا شخص نہیں کہہ رہا البتہ ان کے الفاظ کو گھٹیا ضرور کہہ رہا ہوں۔ خورشید شاہ اپنی بات کہہ گئے کہ ایک گھٹیا شخص ہی گھٹیا الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے بھی عمران خان سے شکایت کی ہے کہ میں پرامن طریقے سے اجلاس چلانے کی کوشش کرتا ہوں مگر بعض وزراء ماحول خراب کررہے ہیں۔ فواد چودھری نے جوش خطابت میں فرمایا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ ڈاکو اور لٹیرے ہیں، ادارے تباہ کردیے اور ملکی دولت عیاشیوں میں ایسے اُڑادی جیسے کوئی ڈاکے کے پیسے مجرے میں اُڑاتا ہے، ان کا کڑا احتساب ہونا چاہیے اور انہیں اُلٹا لٹکادینا چاہیے۔ ڈکیتی کا مال مجرے میں کیسے لٹایا جاتا ہے ، یہ تجربہ نہیں شاید مشاہدہ ہو۔ اپوزیشن کے احتجاج پر فواد چودھری اپنی بات پر اڑگئے کہ ڈاکو ڈاکو نہ کہیں تو اور کیا کہیں، مگر یہ لوگ بُرا مان جاتے ہیں۔ فواد چودھری اور ان کی پارٹی کے چیئرمین اور وزراء کو جواباً کچھ کہا جائے تو وہ بھی برا نہ مانیں۔ موصوف یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت کی ایک ماہ کی کارکردگی پچھلی حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کے برابر ہے۔ اس حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے آچکی ہے اور عوام کی ضرورت کی ہر شے جس تیزی سے مہنگی کی گئی ہے سابق حکومتوں کو یہ کرنے میں عرصہ لگا ہے۔ گیس، بجلی کے بعد اب تازہ ترین واردات سیمنٹ پر ہوئی ہے۔ جس کی ایک بوری پر 80روپے بڑھادیے گئے ہیں۔ مکان بنانا مزید مشکل ہوگیا ہے ۔ فواد چودھری کا خاص نشانہ پیپلزپارٹی تھی اور انہوں نے خورشید شاہ کا نام لے کر الزام لگایا کہ انہوں نے پی آئی اے میں تین دن میں 800افراد بھرتی کرائے۔ فواد چودھری کی زبان درازی پر ان ہی کی پارٹی کے اسپیکر نے انہیں ٹوکا تو انہوں نے فرمایا کہ اسپیکر صاحب ! آپ ان لوگوں سے محبت کا اظہار ضرور کریں لیکن یہ داستان لوگ سننا چاہتے ہیں، میری بات پاکستان کے لوگ سنیں گے۔ اسپیکر نے ان کے الفاظ کارروائی سے حذف کروادیے لیکن پاکستان کے لوگ فواد چودھری کی خوش گفتاری سے محظوظ ہوتے رہے۔ اپوزیشن کے واک آؤٹ پر فواد چودھری نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر معذرت کرلی۔ فواد چودھری کو اپنے کہے پر اڑجانا چاہیے تھا لیکن معذرت کرکے انہوں نے خود تسلیم کرلیا کہ ان کا رویہ غلط تھا ۔ معذرت کے بجائے انہیں پھر کہنا چاہیے تھا کہ ڈاکو کو ڈاکو نہ کہوں تو اور کیا کہوں۔ اس قسم کے لوگ وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے راستے میں کانٹے بورہے ہیں۔ جو عمران خان کو صاف کرنے میں بڑی دشواری ہوگی۔ ایوان سے باہر فواد چودھری جو چاہے کہتے رہیں لیکن ایوان کا تقدس پامال نہ کریں جسے ماضی میں عمران خان بھی چوروں اور لٹیروں کا ایوان کہتے رہے ہیں اب چھوٹے میاں ایوان میں کھڑے ہوکر یہی کہہ رہے ہیں اور جن کو کہہ رہے ہیں وہ بھی عوام کے منتخب کردہ ہیں۔ ادھر اسی دن سندھ اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر سہیل انور سیال بھی بے لگام ہوگئے اور دعویٰ کردیا کہ بھارت سے آنے والے مہاجروں کو ہم پال رہے ہیں ، سندھ نے ان کو کھانا دیا اور پناہ فراہم کی، ان کا بھگوڑا لیڈر(الطاف حسین)پاکستان مخالف تقریر یں بھی کرتا رہا ، ان کا تعلق غدار پارٹی سے ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔سہیل انور سیال کی بکواس کا نوٹس فوری طور پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے لے لیا اور اس طرح وہ عمران خان سے آگے نکل گئے۔ لیکن سہیل انور کا چلایا ہوا تیر کمان سے نکل چکا ہے اور اس شخص نے ایک بار پھر لسانیت کی آگ کو ہوا دیدی ہے۔ بظاہر تو وہ ایم کیوایم کے خلاف بول رہے تھے لیکن انہوں نے تمام اردو بولنے والوں کو نشانہ بنایا ہے۔ سہیل انور جب صوبائی وزیر تھے تو ٹی وی چینلز پر رات گئے مخمور حالت میں ان کی چال کا منظر سب نے دیکھا تھا۔ گزشتہ جمعرات کو بھی یہی لگا کہ ان کا خمار اُترانہیں ہے ۔ الطاف جب پاکستان مخالف تقریریں کرتا تھا تو اس وقت بھی پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم کو سینے سے لگارکھا تھا اور الطاف حسین کے ناراض ہونے پر انہیں منانے کے لیے رحمان ملک اور آصف زرداری خود جایا کرتے تھے۔ زرداری نے بھی اس’’غدار پارٹی‘‘کے مرکز نائن زیرو پر حاضری دی تھی جہاں زرداری الطاف بھائی بھائی کے نعرے لگے تھے۔ الطاف حسین اس سے پہلے 2004ء میں دہلی میں کھڑے ہوکر پاکستان کے خلاف بکواس کرچکا تھا۔ لیکن پیپلزپارٹی نے بھائی چارہ بنائے رکھا۔جہاں تک الطاف کے بھگوڑا ہونے کا تعلق ہے تو پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر اور سابق صدر آصف زرداری بھی یہ کام کرچکے ہیں۔ سہیل انور نے 12مئی کے سانحے کا حوالہ دیتے ہوئے ایم کیوایم کے بارے میں کہا کہ انہوں نے انسانیت کا قتل کیا۔ 2008ء سے سندھ پر مسلسل انور سیال کی پارٹی کی حکومت ہے۔ کیا کسی کو پکڑا؟سہیل انور سیال اگر سندھ کی تاریخ کا کوئی معتبر حوالہ دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ بھارت سے آنے والوں نے سندھ کے مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی جو سندھ میں تجارت اور زراعت پر قابض تھے اور مسلمان ان کی رعیت اور قرض میں ڈوبے ہوئے تھے۔ خود سندھی دانشور اپنی تحریروں میں اس کا اعتراف کرچکے ہیں ۔تمام پڑھے لکھے افراد بھارت سے ہجرت کرکے آئے تھے جنہوں نے حکومت کا کام سنبھالا اور پوری ایمانداری سے نوزائدہ مملکت کو ترقی دی۔ شہر کراچی کی کل آبادی 4ہزار تھی جن میں زیادہ تر ماہی گیر تھے یا پھر ہندوؤں کی تجارتی کوٹھیاں تھیں۔ اس شہر کو عروس البلاد بنانے میں بھارت سے ہجرت کرکے آنے والوں کی محنت ہی کا دخل تھا اور یہ شہر اب سندھ سمیت ملک کے متعدد افراد کو پال رہا ہے۔پیپلزپارٹی کی طرف سے لسانی جنگ کا طبل بجانے پر ایم کیوایم کا شدید ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے۔یہ سلسلہ جلد تھمنے والا نہیں ہے، چنگاریاں سلگ اُٹھی ہیں۔ اسی اجلاس میں پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی تیمور تالپور نے جوش میں آکر ایسا انکشاف کیا جو ان کی پارٹی کے گلے پڑے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ سینیٹ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے ووٹ خریدے اور بیچنے والا اسی ایوان میں بیٹھا ہے۔ بہتر تھا کہ وہ بیچنے والے کا نام بھی بتادیتے۔ لیکن یہ گھر کی گواہی ہے کہ پیپلزپارٹی نے ووٹ خریدے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات تو پہلے ہی مشکوک ہوگئے تھے اب ایک گواہی بھی سامنے آگئی جو خریدار کی طرف سے ہے۔ اس انکشاف پر بھی ایوان میں ہنگامہ ہوا لیکن بات یہیں تک نہیں رہنی چاہیے اور اس کی پوری تحقیق ہونی چاہیے۔ الیکشن کمیشن تیمور تالپور کو طلب کرکے ان بیان ریکارڈ کرے اور کوئی ٹھوس قدم اٹھائے۔ تیمور کے اس انکشاف کی وڈیو چیف جسٹس کو بھی بھیجی جارہی ہے لیکن پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری گھر کی خبر لیں۔ ان کے اپنے چراغ گھر پھونکنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلاول زرداری اپنی پارٹی اور سندھ حکومت میں اصلاحات کے لیے کوشش کررہے ہیں اور اُمید ہے کہ وہ ماضی کی طرح اپنے لوگوں کی حرکات کو چھپانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ پیپلزپارٹی میں بھی کئی فواد چودھری بیٹھے ہوئے ہیں۔