بچوں کے اغوا کا ڈراما

189

کراچی میں بہت دن سے بچوں کے اغوا کے حوالے سے خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے لیکن پولیس افسران اس کی تردید کرتے ہیں اور ان کا موقف صحیح ثابت ہوا ہے۔اغوا کی کئی خبریں بے بنیاد ثابت ہوئی ہیں۔ بچے تو حسب معمول پڑوس میں چلے گئے یا والدین کی لا پروائی کی وجہ سے کہیں دور نکل گئے۔ گزشتہ دنوں نیپئر روڈ کے ایک فلیٹ سے 8 ماہ کی بچی کے اغوا کی بے سرو پا خبر نے سنسنی پھیلا دی تھی کہ بچی کو اس کی ماں کی گود سے چھین کر اغوا کرلیا گیا۔ پولیس نے سرجانی ٹاؤن سے بچی بازیاب کرکے حقیقت کا سراغ لگا لیا جس کے مطابق بچی کی ماں نے اسے خود کسی کے حوالے کیا تھا۔ ایسے ہی کئی اور لاپتا بچوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اغوا نہیں ہوئے تھے۔ ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید عالم کا کہنا ہے کہ بچوں کے اغوا کی خبریں نشر کرکے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے۔ 8 ماہ کی بچی کے اغوا کی داستان شروع ہی سے مشکوک لگ رہی تھی۔ فلیٹ تیسری منزل پر ہے جہاں کچھ لوگ پہنچے اور بچی کو چھین کر لے گئے۔ ایسے معاملات میں والدین کی غیر ذمہ داری بھی سامنے آئی ہے جو اس بات پر نظر نہیں رکھتے کہ ان کے بچے کہاں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں کوئی چیز خریدنے یا کھیلنے کے لیے باہر نکل جاتی ہیں اور کسی کے ہھتے چڑھ جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں سرجانی ٹاؤن میں ایک موٹرسائیکل سوار نے دو زخمی بہن بھائی کو ان کے گھر پہنچایا جن کو کوئی موٹر سائیکل والا ٹکر مار کر نکل گیا تھا۔ یہ حادثہ نئی کراچی کے سندھی ہوٹل کے قریب پیش آیا چنانچہ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں بچے گھر سے نکل کر اتنی دور کیسے پہنچے ۔ بچوں کے اغوا کی کئی خبریں تو افواہ ثابت ہوئی ہیں لیکن یہ ضرور واضح ہوگیا کہ والدین انتہائی لاپروا ہوگئے ہیں۔ باپ تو ممکن ہے کہ حصول معاش میں گھر سے باہر ہوتا ہو لیکن ماں اور گھر کے دیگر افراد کیوں نظر نہیں رکھتے۔ اب ایک بچی کے قتل کا واقعہ سامنے آیا ہے۔ سی سی ٹی وی کے ذریعے دکھایا گیا کہ ایک برقع پوش عورت تھیلے میں بند بچی کی لاش پھینک کر جارہی ہے اور اطمینان کا یہ عالم کہ تھیلا بھی خالی کرکے اپنے ساتھ لے گئی۔ پولیس نے بڑی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے اس واردات کا بھی سراغ لگا لیا اور معلوم ہوا کہ بچی کو قتل کرکے پھینکنے والی یہ عورت اور کوئی نہیں بچی کی ماں ہے۔ یہ سفاکی کی انتہا ہے کہ مائیں خود اپنے بچوں کو قتل کرنے لگی ہیں۔ جانور تک اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے لڑنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔