خبریں ہیں کہ کراچی میں ہائی الرٹ کے باوجود بھی پورے شہر میں ڈاکووں کی خوب چاندی ہوگئی ہے۔ خریداروں کی ریل پیل اور تفریح گاہوں میں لوگوں کے بے تحاشا ہجوم کا فائدہ لوٹ مار کرنے والے خوب خوب اٹھارہے ہیں۔ شہر کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جو ان لٹیروں کی دست برد سے بچا ہو۔ شہر کے سارے ہی طول و عرض میں خوب لوٹ مار مچی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں شہری مرد وخواتین قیمتی زیورات، موبائل فونز، قیمتی کھڑیوں اور بڑی بڑی نقد رقوم سے محروم ہورہے ہیں اور مصروف علاقوں سے درجنوں موٹر سائیکلیں اور کاریں بھی چھینی جا رہی ہیں۔
یہ سب کچھ اس عالم میں ہوتا رہا جب شہر کی اہم شاہراہوں، تفریح گاہوں، اہم مقامات اور شاپنگ سینٹروں پر نگرانی کرنے والے کیمرے اور رینجرز اور پولیس بھی موجود ہے پھر بھی لوٹ مار کرنے والے ہاتھ دکھانے میں کامیاب ہیں۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ شہرکراچی میں امن و امان کی صورت حال مثالی ہوگئی ہے اور اب وہ صورت حال نہیں جو ایک دو برس قبل تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دو تین برس پہلے کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہت ہی ناگفتہ بہہ تھی خصوصاً ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اب کسی بھی تخریب کاری کو اس طرح ہائی لائٹ نہیں کیا جاتا جس طرح کیا جاتا رہا ہے۔ شہر میں کہیں بلی کا بچہ بھی مرجاتا تھا تو سارے ٹی وی چینل صبح سے شام تک اس خبر کو رگڑتے رہتے تھے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اب وارداتیوں نے طریقہ واردات تبدیل کرلیا ہے۔ پہلے کسی بھی مزاحمت پر لوٹنے والے ٹھیک اس انداز میں گولی مارتے تھے کہ گولی کھانے والا زندہ ہی نہ بچ سکے لیکن اب وہ گولی اس مقام پر مارتے ہیں جہاں اس کے مرنے کے امکانات کم سے کم ہوں البتہ اس کو زندگی بھر معذور ضرور کردیتے ہیں۔ کراچی میں جتنی اموات ہوتی تھیں کم و بیش آج بھی اتنے ہی گھائل کیے جاتے ہیں اور ان کے لیے زندگی موت سے بھی زیادہ بھیانک ہوجاتی ہے۔ مزاحمت پر گولی ماردینا ایک ایسا معمول بن گیا ہے جیسے یہ ہنسی مذاق کا کام ہو۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ لوٹ گھوٹ کرنے والے کسی بھی مزاحمت کرنے والے کو گولی ماریں؟ بات یہ ہے کہ لوٹنے والوں نے فضا ایسی بنادی ہے کہ اب شاید لاکھوں میں کوئی ایک ہی ایسا ہو جو مزاحمت کی ہمت کرتا ہو۔ پوری دنیا کے علم میں یہ بات بہت اچھی طرح آچکی ہے کہ اب لوٹنے والے کسی کے محض ڈرجانے کو بھی مزاحمت سمجھتے ہیں اور گولی ماردینے میں لمحہ نہیں لگاتے یہی وجہ ہے کہ ہر فرد اپنے آپ کو خاموشی سے لوٹنے والے کے حوالے کردیتا ہے اور وہ بھی نہایت دلیری کے ساتھ کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ اس کی ذرا سی ہچکچاہٹ اس کی موت یا معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان کے طول و عرض سے جو بھی خبریں آتی ہیں ان میں ایک جملہ مشترک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ’’ڈاکووں نے مزحمت کرنے پر فلاں کو گولی مار کر ہلاک یا زخمی کردیا‘‘ اور یہ بات عین حقیقت بھی ہے۔ پہلے ہوتا یہ تھا کہ یہ ہر مزاحم کو قتل کردیا جاتا تھا لیکن اب زیادہ اطلاعات زخمی کردینے کی موصول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ امن و امان کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔
اگر کوئی بات بہت دعوے سے کہی جاسکتی ہے تو وہ اغوا برائے تاوان کے متعلق کہی جاسکتی ہے جو اب نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ اب اس قسم کا کوئی کیس سامنے ہی نہیں آتا لیکن اس پر بھی یہ سمجھ لینا کہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے وہ نادانی ہے۔ اغوا کیے جانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس کے بعد وارثوں سے تاوان کی رقم کا مطالبہ کیا جائے لیکن اگر یہی رقم کسی کو اغوا کیے بغیر ہی مل جائے تو اغوا کرنے کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ایک پر چی آتی ہے، اس پر رقم درج ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ پستول کی ایک گولی بھی ہاتھ میں تھمادی جاتی ہے۔ بے شک اس کو آپ ’’بھتے‘‘ کا نام دیدیں لیکن میرے نزدیک یہ اغوا برائے تاوان ہی کی ایک تبدیل شدہ شکل ہے۔ کچھ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اس کی اطلاع متعلقہ محکموں تک ضرور کرتے ہوں گے لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں باقی تو اپنے بچوں کی زندگی، اپنی سانسوں اور بہو بیٹیوں کی عزت کی خاطر ان کے مطالبات کے آگے ہتھیار ڈالنے پر ہی مجبور ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ تو ایسے حضرات کو یہ ہوتا ہے کہ کہیں متعلقہ محکموں کو اطلاع دینا ’’اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگنے کے مترادف‘‘ نہ ہوجائے اس لیے کہ شہریوں کا عام خیال یہی ہے کہ ایسے سارے کام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ایما کے بغیر ممکن ہی نہیں اور شاید یہ بات اس لیے بھی غلط نہیں کہ اکثر چوری، زنا، شراب، منشیات اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اہلکار ملوث پائے گئے ہیں اور کئی کو رنگے ہاتھوں پکڑا بھی جاچکا ہے۔ سڑکوں پر اسنیپ چیکنگ کے بہانے پولیس کا کسی کو بھی روک لینا، ان کو ڈرانا دھمکانا، ان سے رشوت طلب کرنا، سڑک کے کنارے چھابڑیوں والوں، ٹھیلے والوں سے اپنا حصہ وصول کرنا، زمینوں پر ناجائز قبضہ دلانا یا قبضہ کرنے والوں سے اپنے حصے طے کرنا، کوئی جائز طریقے سے بھی اپنی تعمیر کررہا ہو تو اس سے چائے پانی اور مٹھائی کی مد میں حسب حال اپنا حصہ لینا جس پولیس کا کردار ہو اس سے کسی خیر کی توقع رکھنا مجذوب کی بڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
معاشرہ بہت ہی خراب ہو چکا ہے اور بظاہر اس کے سدھار کی کوئی امید دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ محافظ لٹیرے ہو چکے ہیں اور لوٹنے والے شیر جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ کراچی کے طول و عرض میں ہزاروں وارداتیں ہوتی ہیں، بیسیوں قتل ہوتے ہیں، درجنوں گھائل ہوتے ہیں، ڈکیتیاں ہوتی ہیں، بینک لوٹے جاتے ہیں، اے ٹی ایم سے رقم نکالنے والوں سے نکالی گئی رقم چھین لی جاتی ہے لیکن ان ساری وارداتوں کے جواب میں جو گرفتاریاں ہوتی ہیں وہ نہ ہونے کے برابر ہیں اور گرفتاریوں کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس کا علم اللہ کے سوا شاید ہی کسی کو ہوتا ہو۔ اس ساری صورت حال کے بعد اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ کراچی پر سکون ہوگیا ہے تو یہ بہت بڑی بھول ہوگی۔
درندوں کے حوصلے ہیں کہ روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالم یہ ہو گیا ہے کہ اب معصوم بچے بھی بکثرت اغوا ہونے لگے ہیں۔ ایک جانب ان کے اغوا کے غم میں نڈھال والدین اپنے بچوں کے اغوا ہونے پر سراسر احتجاج بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ان کے بچوں کے اغوا کاروں کو گرفت میں لینے کے بجائے احتجاج میں شریک رشتے داروں اور ان کا ساتھ دینے والے اہل محلہ و علاقہ پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔
صرف اغوا ہونے ہی کا غم ان کے لیے سوہان روح نہیں بنا ہوا بلکہ اغوا کیے جانے والے اکثر بچے مردہ حالت میں بھی دستیاب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ہر اٹھ جانے والے بچے کے لوحقین نہایت دہشت زدگی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
ایک بات اور بھی یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ جب وہ فورسز جن کاکام سرحدوں کی محافظت یا غیرمعمولی صورت حال کو کنٹرول کرنا ہو اور ان کو پولیس کی ڈیوٹی پر لگادیا جائے اور یہ ڈیوٹی بھی برسوں پر مشتمل ہوجائے تو وہ فورسز بھی اپنی اہمیت کھودیتی ہیں اور لوگوں کے دلوں میں ان کا ادب و احترام مجروح ہوجاتا ہے۔ کراچی میں ان کی ایک طویل عرصے سے موجودگی ان کی اہمیت اور شان کھوتی جارہی ہے۔ لوگ ان کو پولیس کی طرح سڑکوں پر دوڑتا پھرتا، مختلف مقامات پر کھڑے ہوکر نگرانی کرتا اور لوگوں کو پولیس کی طرح چیک کرتا دیکھ دیکھ کر اب تنگ آچکے ہیں۔ اگر شہر کی پولیس اتنی ناکارہ ہے کہ ان کے فرائض بھی رینجرز کو ادا کرنے پڑرہے ہیں تو عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پھر اس ادارے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جو ادارہ بنایا ہی اس لیے جائے کہ وہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرے گا اور وہی ادارہ ان میں نہ صرف بری طرح ناکام ہوجائے بلکہ لوٹ مار، اغوابرائے تاوان اور دیگر جرائم میں ملوث ہوجائے تو اس کو تو ہر صورت میں توڑ دینا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس محکمے کو یا تو کراچی شہر سے ختم کر دیا جائے یا پھر اس کو اتنا فعال بنایا جائے کہ رینجرز کی ضرورت ہی نہ رہے۔ کراچی میں اگر کچھ اور عرصے رینجرز کو قیام کرنا پڑا تو ممکن ہے دنیا اس کو ’’مقبوضہ‘‘ قرار دے کر اس کی مثال بھارتی کشمیر سے دینے لگے۔ ویسے بھی دنیا ہماری دوست کب ہے، اس لیے اس جانب جس قدرجلد غور کرلیا جائے گا اتنا ہی پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا۔