سرسید کے تصور فطرت کا جائزہ لیتے ہوئے جہاں عسکری صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ سرسید کے تصور فطرت کا قرآن و سنت اور احادیث مبارکہ کی روایت سے کوئی تعلق نہ تھا وہیں عسکری صاحب نے اس امر کی نشاندہی بھی کی ہے کہ سرسید کے تصور فطرت کو ہماری فکری روایت سے بھی کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ عسکری صاحب کا علم قاموسی یا Incyclopedic تھا۔ اس علم پر اضافہ محال نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ مگر عسکری صاحب بھی بہرحال انسان ہی تھے اس لیے نہ جانے کیسے اسلام کے تصور فطرت پر بات کرتے ہوئے وہ امام غزالیؒ کی تحریر کے ایک بہت اہم اقتباس سے صرف نظر کرگئے۔ امام غزالی نے فطرت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
’’انبیا نے آکر بندوں کو عبادت و معرفت کا حکم دیا۔ اور طریق حق کی طرف انہیں بلایا۔ اور انہیں سچ کی دعوت دی۔ پس جس نے ان کی تابعداری کی اُس نے نجات پائی۔ اور جس نے اُن کی مخالفت کی وہ ہلاک و برباد ہوا۔ اور جس نے اُن کے کلام کو سُنا اور اُن کے اوامر کو مانا اس کے دل سے مرض شک دور ہوگیا۔ اور کفر کی بیماری ہٹ گئی اور صدق کی صحت اور دین کی قوت اور روح کی ہدایت نے اُس کے بدن میں سرایت کی اور اس کا مزاج اس فطرت پر قائم ہوگیا جس پر کہ وہ پانی اور مٹی کے پہلے تھا۔ اور جس شخص نے ان الٰہی طبیبوں کے اوامر کی مخالفت کی تو اُس نے اپنے مزاج کو بگاڑ لیا۔ اور اس کا علاج مفقود ہوگیا۔ اور فطرت کی طرف اس کا کوئی رستہ نہ رہا۔ اور شیطان نے اُسے اپنا دوست بنالیا۔ جب قیامت کا دن آئے گا تو یہ مریض کہے گا۔ ہائے افسوس! میں نے احکام خداوندی کی بجاآوری میں کیسی کوتاہی کی۔ اس روز اُسے شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کچھ کام نہ آئے گی‘‘۔
(مجربات امام غزالیؒ ۔ صفحہ 216)
امام غزالی کے اس اقتباس کو دیکھا جائے تو اس میں فطرت کا لفظ ربانی ہدایت اور اس سے پیدا ہونے والی روحانی کیفیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے نہ کہ سرسید کے معنوں میں۔ بہرحال امام غزالی کے بعد آئیے عسکری صاحب کی اس فکری رہنمائی کی طرف لوٹتے ہیں جو انہوں نے اسلامی فکر میں فطرت کے مفہوم کے حوالے سے مہیا کی ہے۔ اس سلسلے میں عسکری صاحب نے سب سے پہلے متکلمین سے بات کا آغاز کیا ہے۔ عسکری صاحب نے لکھا ہے۔
’’متکلمین کہتے ہیں کہ طبعی کائنات ذرات دیمی قراطیسی کا مجموعہ ہے۔ یہ نظریہ انہوں نے یونان کے جوہری فلسفیوں سے لیا ہے جس کا بیان ہم یونانی فلسفے کے ضمن میں کرچکے ہیں۔ دراصل یہ کوئی دینی مسئلہ بھی نہیں۔ متکلمین فلسفیوں کا رد کیا کرتے تھے اور خود انہی کے منطقی دلائل سے۔ فلسفی لوگ ارسطو کے ہیولیٰ کے قائل تھے ان کے برخلاف متکلمین نے جزولایتجزیٰ کا نظریہ اختیار کیا۔ مطلب یہ دکھانا تھا کہ جس طرح منطقی دلائل سے ہیولیٰ کا اثبات ہوسکتا ہے اسی طرح جزولایتجزیٰکا اثبات بھی ہوسکتا ہے۔ متکلمین کا مقصود یہ تھا کہ عقلِ انسانی کو آخری معیار قرار نہ دیا جائے جو فلسفی کرتے تھے۔
یونان کے جوہری فلسفیوں کے بارے میں مغرب کے مفکرین کہتے ہیں کہ مغرب میں مادہ پرستی انہی سے شروع ہوئی۔ لیکن جزولایتجزیٰکا نظریہ مادہ پرستی کے مترادف نہیں بلکہ اسلامی متکلمین اس نظریے کو خدا کے قادر مطلق اور عالم کل ہونے پر دلیل بناتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ چاہے ہم جزولایتجزیٰکو نہ دیکھ سکیں لیکن قرآن شریف میں آیا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کو ایک خاص اندازے کے مطابق بنایا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ ہی ذرات کی کیفیت اور اندازے سے واقف ہے۔ سرسید والے قوانین فطرت کا قائل ہونا تو درکنار، متکلمین تو اللہ تعالیٰ کو کائنات کے ہر ذرے اور اس کے عوامل پر قادر سمجھتے تھے۔ اس معاملے میں فلسفیوں سے ان کا بنیادی اختلاف تھا۔ بعض فلسفی ارسطو کی پیروی میں کہتے تھے کہ خدا نے کائنات کو تخلیق کیا اور اس کے بعد اسے چھوڑ دیا کہ خود عمل کرتی رہے۔ متکلمین کا اعتقاد تھا کہ کائنات کا ایک ذرہ بھی خدا کے ارادے کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ اسی سے ظاہر ہے کہ جزولایتجزیٰ کا نظریہ لازمی طور پر مادہ پرستی کی طرف نہیں لے جاتا۔
فلسفیوں کے ہاں
مسلمان فلسفیوں کے دو مشہور گروہ ہیں۔ ایک تو اشراقی، جن کی نمائندگی شہاب الدین سہروردی مقتول کرتے ہیں۔ یہ لوگ افلاطون اور فلاطینوس کے زیر اثر ہیں۔ دوسرا گروہ ہے مشائی۔ یہ لوگ ارسطو کے پیرو ہیں جن کی نمائندگی ابن سینا کرتے ہیں۔
اشراقی فلسفی کائنات کو خدا کا سایہ یا عکس سمجھتے ہیں۔ اس نظریے کا بیان ہم افلاطون کے سلسلے میں کرچکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے مفکر ایسے قوانین فطرت کے قائل نہیں ہوسکتے جو خدا کے ارادے سے آزاد ہوں۔
مشائی فلسفی ارسطو کی طرح ہیولیٰ کے قائل ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ پوری کائنات اور اس کی ہر شے ایک ایسے مادے سے بنی ہے جو حواس کے ذریعے ادراک میں نہیں آسکتا۔ ارسطو اور ٹامس اکوائناس پر بحث کرتے ہوئے ہم بتا چکے ہیں کہ یہ مادہ درحقیقت محض ایک اصول ہے جو صرف عقل کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی جدید مغربی فکر سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
ہیولیٰ کے علاوہ مشائی فلسفی ارسطو کے اس نظریے کے بھی قائل ہیں کہ ہر چیز دو اصولوں سے مل کر بنتی ہے، ایک تو صورت اور دوسرے مادہ۔ یہ بھی ہم تصریح کرچکے ہیں کہ ارسطو کے یہاں مادہ اولیٰ کے معنی ہیں صورت قبول کرنے کی صلاحیت۔ پھر صورت سے مراد کوئی نظر آنے والی شکل نہیں، بلکہ ایک فاعلی اصول ہے۔ اس طرح ارسطو کی ’’صورت‘‘ اور افلاطون کے ’’اعیان‘‘ دراصل ایک ہی چیز بن جاتے ہیں۔ اس طرح مشائی گروہ کا فلسفہ بھی جدید مغربی فکر سے اتنا ہی دور نظر آتا ہے جتنا افلاطون کا فلسفہ۔
صوفیوں کے ہاں
چوں کہ تصوف کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان کو اللہ سے لَو لگانے کا طریقہ سکھایا جائے۔ اس لیے صوفیوں کو تو کسی ایسے نظریے کا دور سے بھی واسطہ نہیں ہوسکتا جو قوانین فطرت کو خود مختار سمجھتا ہو۔ بہرحال ہم صوفیا کے تین مسائل نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں جن سے واضح ہوگا کہ وہ کائنات کے عوامل ہی نہیں بلکہ خود کائنات کے وجود کو اللہ تعالیٰ کے ارادے پر منحصر سمجھتے ہیں۔ ان تینوں مسائل کا بیان ہم نے ’’مصباح التعرف لارباب التصوف‘‘ ازمحمد حیدر علی قلندر (مطبع سرکاری ریاست رامپور) سے لیا ہے۔ پہلا مسئلہ ہے تجددّ امثال کا۔ کوئی چیز وجود ذاتی نہیں رکھتی بلکہ اپنا وجود اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتی ہے۔ اس سے بھی آگے یہ کہ کسی چیز کا وجود مسلسل بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہر چیز کو ہر لمحے فنا کرتا ہے اور پھر ازسر نو پیدا کرتا ہے۔ جب کسی چیز کا نہ تو مستقل وجود ہے نہ مسلسل تو پھر وہ قوانین فطرت کہاں سے آئے جو مستقل طور سے عمل کرتے ہوں۔
دوسرا مسئلہ ہے اعیان ثابتہ کا۔ ابن عربیؒ کے نزدیک اعیان ثابتہ کا مطلب ہے معلومات الٰہیہ۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو اسے بنانے سے پہلے جانتا ہے، اور اس نے جس چیز کی حقیقت کو جس طرح جانا ہے اسی کی رو سے اسے تخلیق کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے کسی اسم کی تجلی کسی عین ثابتہ پر پڑتی ہے تو کوئی خاص شے پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا حقیقت مادی اشیا میں نہیں ہوتی بلکہ اعیان ثابتہ میں ہوتی ہے۔ اعیان ثابتہ چوں کہ معلومات الٰہیہ ہیں اس لیے ابن عربیؒ نے کہا ہے کہ اعیان ثابتہ نے وجود کی بو تک نہیں سونگھی۔ جب حقائق اشیا وجود سے بھی آزاد ہوں تو سرسید والے قوانین فطرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تیسرا مسئلہ ہے تنزلات ستہ کا جس میں موجودات کی حقیقت اور نوعیت بیان کی گئی ہے۔ آسان لفظوں میں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانی عقل نہ تو اللہ تعالی کی ذات کو سمجھ سکتی ہے اور نہ اس تعلق کو جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بنائے ہوئے عالم کے درمیان ہے۔ بہرحال جہاں تک انسانی فہم کی رسائی ہے، حقیقت کے چند درجے اور مراتب ہیں جو حقیقت عظمیٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات سے شروع ہو کر نیچے انسان اور مادی اشیا تک آتے ہیں۔ پہلا درجہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات یا احدیت کا۔ دوسرا مرتبہ ہے وحدت کا۔ پہلا مرتبہ تو ہر قسم کے تعین سے آزاد ہے۔ دوسرے مرتبے سے تعین شروع ہوجاتا ہے یعنی انسان اپنی زبان میں اس کے بارے میں کچھ کہہ سکتا ہے۔ تیسرا مرتبہ ہے واحدیت کا۔ اس کے بعد عالم شروع ہوتا ہے۔ چناں چہ چوتھا مرتبہ ہے عالم ارواح کا۔ پانچواں مرتبہ ہے عالم مثال کا اور چھٹا ہے عالم شہادت کا۔ انسانی حواس اور عقل کی رسائی صرف عالم شہادت تک ہے۔ اس سے آگے انسانی عقل کا دائرہ محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔ چوں کہ اصلی حقیقت عالم شہادت میں موجود نہیں، اس لیے اگر انسانی عقل عالم شہادت کے چند قوانین دریافت بھی کرلے تو وہ پوری طرح قابل اعتبار نہیں ہوں گے۔ مراتب کے تصور ہی سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ فطرت اور قوانین فطرت کا مغربی تصور صوفیا کے نزدیک باطل ہے۔
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت۔ ازڈاکٹر ظفر حسن۔ صفحہ 249، 248، 247، 246، 245)