پرانا گیم شروع۔۔۔ کچھ نہیں بدلا

375

 

\اب جب کہ گیم شروع ہوگیا ہے۔۔۔ نہیں۔۔۔ بلکہ پرانا گیم وہیں سے شروع ہوگیا ہے جہاں سے رکا تھا کچھ چہرے بدلے ہیں کچھ باتیں، لیکن کام کوئی نہیں بدلا۔ پاکستان میں انتخابات سے قبل کچھ لوگ بتارہے تھے کہ اگلے قرض کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا۔ بڑی آسان شرائط پر قرض حاصل کرلیں گے اور ان آسان شرائط کے لیے انہوں نے گیس پر ٹیکس، بجلی پر ٹیکس، پٹرول پر ٹیکس لگادیتے تھے، مختلف مراعات ختم کردی تھیں، اس کی وجہ ان کی اپنی پالیسی نہیں تھی آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادروں کی شرائط تھیں، پھر آئی ایم ایف سے قرض مل جاتا تھا، اس وقت اپوزیشن میں آج کے وزیرخزانہ اسد عمر صاحب خطاب فرماتے تھے کہ دنیا میں گیس کے نرخ ایک تہائی رہ گئے اور یہاں ٹیکس لگ رہا ہے لیکن حکومت میں آتے ہی 143 فی صد نرخ بڑھادیے، کیوں۔ اس لیے کہ انہیں بھی وہیں جانا ہے جہاں اسحق ڈار کا جانا ان کے نزدیک حرام تھا۔ اب فرمایا ہے کہ معیشت آپریشن ٹیبل پر ہے قرض کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ آخر میں اعلان کریں گے کہ ااپریشن کامیاب ہوگیا ہے لیکن مریض کا انتقال ہوگیا ہے۔ پہلے کہا تھا نہیں جائیں گے، پھر کہا تھا کہ ضرورت پڑی تو مشورے سے جائیں گے۔ پھر کہا کہ ایسی ہنگامی صورت حال نہیں کہ آئی ایم ایف سے مدد مانگنی پڑے۔ انہوں نے یہ دلچسپ اعلان کیا ہے کہ ٹیکس چور ٹھیک ہوجائیں ان کے خلاف کارروائی ہونے والی ہے۔ انہوں نے اطلاع دی کہ فنانس بل میں امیروں پر زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہے۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ وزیر خزانہ کی صورت میں ایسا فرد مل گیا ہے جس کے دم سے لکھنے والوں کو ہر دم کوئی نہ کوئی مواد ملتا رہے گا۔ پہلے یہ خدمت رحمن
ملک اور شیخ رشید انجام دیتے تھے۔ وزیر خزانہ نے درست فرمایا ابھی ایسی ہنگامی صورت حال نہیں ہے ابھی تو آئی ایم ایف سے مدد مانگنی پڑے، ابھی تو ہم نے گیس کے نرخ بڑھائے تھے اب پٹرول اور بجلی کے نرخ بڑھیں گے۔ ٹیکس میں تھوڑا تھوڑا اضافہ کریں گے۔ عوام کی جیب میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس تو اس وقت جائیں گے جب عوام کچھ بھی دینے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ جو اقدامات حکومت کررہی ہے اس کا سبب کچھ تو ہوگا۔ سبب یہ ہے کہ اب آپ کو آئی ایم ایف کے پاس مدد مانگنے جانا پڑے وہ خود پہنچ جاتے ہیں مدد لے لو، قرضہ لے لو۔۔۔ اچھا شرائط نرم کردیتے ہیں اور شرط یہ ہے کہ پانچ سال کے بجائے 20 سال میں واپس کردینا۔ شرح سود تھوڑی زیادہ ہوجائے گی، چناں چہ گیس کے نرخ بڑھادیے گئے۔ وزیر خزانہ اسد عمر قوم کو کیوں نہیں بتاتے کہ چند ماہ قبل جس گیس پر ٹیکس لگنے پر وہ اسمبلی میں تقریر فرمارہے تھے کہ اب اس کی قیمت دنیا میں ایک تہائی رہ گئی ہے، اب وہی گیس کس کے کہنے پر مہنگی کی گئی ہے۔ کوئلے کی کانیں بند کرنے کے احکامات کیوں دیے گئے ہیں، کس کے کہنے پر دیے گئے ہیں، اس طرح پنجاب میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی دھند چھا جانے کا آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ اینٹوں کے بھٹے بند کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اگر اینٹوں کے بھٹے بند کرنے سے اکتوبر سے دسمبر تک دھند ختم نہ ہوئی تو بھٹہ خشت مزدوروں کا بھٹہ بٹھانے کا ذمے دار کون ہوگا۔
وزیر خزانہ کے اس اعلان کو عوام نے بہت سراہا ہے کہ ٹیکس چور ٹھیک ہوجائیں، ان کے خلاف کارروائی ہونے والی ہے۔ عوام نے اس پر جتنا یقین کیا ہے وہ تو الگ ہے سنا ہے ٹیکس چوروں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے کہ اب تو وزیر خزانہ نے کہہ دیا ہے کہ سدھر جاؤ۔۔۔ ورنہ کارروائی ہوگی۔ اس بیان کے بعد سے مزاروں پر ٹیکس چوروں کی طرف سے چادریں اور دیگیں پہنچائی جارہی ہیں کچھ تو اتنا سدھر گئے ہیں کہ انہوں نے مسجدوں کا رُخ کرلیا ہے۔ ممکن محض ایک جمعے کے لیے کیا ہو لیکن جمعے کو بہت سے ٹیکس چور مسجد میں دیکھے گئے۔ ٹیکس چوروں کے بارے میں وزیر خزانہ کا بیان بالکل ویسا ہی ہے جیسا گلیوں، محلوں کے چوکیداروں کا طریقہ ہوتا ہے۔ وہ ایک بڑا علاقہ اپنے ذمے لے لیتے ہیں، رات کو سیٹیاں بجاتے ہیں اور سائیکل یا موٹر سائیکل پر چکر لگاتے ہیں۔ ایک علاقے میں سیٹی کے بعد دوبارہ وہاں پہنچنے کے درمیان 20 منٹ سے نصف گھنٹے تک کا وقفہ ہوتا ہے یعنی یہ سیٹی اس لیے بجائی جاتی ہے کہ ابھی تو ہم آرہے ہیں۔ پھر جو بھی چور ہیں وہ اس وقت تک خاموش ہوجاتے تھے جب تک چوکیدار وہاں سے کھسک نہیں جاتا تھا۔ تو کیا یہ بیان ٹیکس چوروں کو کھسک جانے کا موقع دینے کے لیے دیا گیا تھا۔ ہمارے خیال میں تو ایسا ہی ہے۔ اگر حکومت ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے تو کارروائی کرے اعلان نہ کرے۔ اگر وزیر خزانہ کے بیان سے ٹیکس چور سدھرنے لگیں تو پھر کوئی مسئلہ نہ رہے۔ بس اسد عمر صاحب کو بلالیں اب تو ان کی خدمات بھی ان کے خلاف بھی لی جاسکتی ہیں کہ وہ سرحد پر جا کر بیان دیں کہ بھارتی آبی جارحیت کرنے والے سدھر جائیں۔ اور تو اور بھارتی فوج کے سربراہ جنرل راوت کو بھی کہہ دیں کہ سدھر جاؤ۔۔۔ پھر دیکھیں اسلحے کے ڈھیر رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ معاملہ صرف ایک آدمی کا نہیں ہے، ابھی اسد عمر صاحب کے بیانات پڑھ کر سر دھننے کا مرحلہ جاری تھا کہ جنرل پرویز کے سابق ترجمان فواد چودھری صاحب اسمبلی میں ایسا بولے ایسا بولے۔۔۔ کہ معذرت کرنا پڑی۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے قوم کو یہ بتانا تھا کہ اسمبلیوں میں تماشے لگ گئے ہیں اس لیے ادھر بھی نظر کرم کرلیا کریں۔ اسی حوالے سے سندھ اسمبلی میں بھی سابق وزیر داخلہ انور سیال صاحب نے الٹی سیدھی باتیں کیں، اس کا ذکر کرنا ان کے ایجنڈے کو تقویت دینے کے مترادف ہوگا۔ یہ بھی پرانا گیم وہیں سے شروع کرنے کا حصہ ہے۔ پہلے ایم کیو ایم الطاف اور حکومت سندھ یا پیپلز پارٹی والے ایک دوسرے کے خلاف خوب چیختے چلاتے تھے اور دونوں اپنے اپنے ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرتے تھے کہ دیکھا اسمبلی میں کھڑے ہو کر مہاجروں کو وہ سنائی ہیں کہ ان کا دماغ ٹھیک کردیا اور ایم کیو ایم والے تو اسمبلی میں بھی سناتے تھے اور کراچی و حیدر آباد میں ہڑتال کرکے سو پچاس گاڑیاں جلا ڈالتے تھے کہ ہم نے مہاجروں کی لاج رکھ لی۔ بہرحال پرانا گیم شروع ہوگیا ہے کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے۔