دودھ کی رکھوالی بلے کے حوالے

302

وفاقی حکومت کے ترجمان فواد چودھری نے فرمایا ہے کہ نواز شریف کے منصوبوں کے آڈٹ پر شہباز شریف کو نہیں بٹھا سکتے، یہ کہتے ہوئے انہوں نے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے سے انکار کردیا کہ اپوزیشن کا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی مقرر کرنا ایسا ہی ہے جیسے دودھ کی رکھوالی کے لیے بلے کو رکھ لیا جائے۔ وزیر اطلاعات کا کام تو یہی ہے کہ حکومت اور وزیراعظم جو اعلان کریں اس کی حمایت میں آنکھ بند کرکے پورا منہ کھول دیا جائے لہٰذا وہ اس پر کبھی غور ہی نہیں کرتے کہ وہ کیا کررہے ہیں بس حکومت کے فیصلے کی حمایت اور اپوزیشن کی مخالفت کرنی ہے۔ لہٰذا شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی دینے سے صاف انکار کردیا دلیل ہے کہ وہ نواز شریف کے منصوبوں کے آڈت پر انہیں نہیں بٹھا سکتے۔ لیکن جناب کیا اگلے پانچ سال تک صرف نواز شریف کے منصوبوں کا آڈٹ ہوگا۔۔۔ جناب کی حکومت کوئی منصوبہ رکھتی بھی ہے یا نہیں۔۔۔ یا پھر ان کا منصوبہ شریف خاندان سے دشمنی ہے۔۔۔ جہاں تک دودھ کی رکھوالی بلے کے حوالے کرنے کا تعلق ہے تو اس کا اظہار اس وقت ہوگیا تھا جب قادیانیوں اور قادیانیت نواز افراد کو اہم عہدے دیئے جا رہے تھے۔ حلف نامے میں ترمیم میں ملوث شفقت محمود کو اسی لیے وزارت تعلیم دی ہے تاکہ وہ آسانی سے دودھ کی رکھوالی کرسکیں۔ اسی طرح میاں عاطف کا تقرر قادیانیوں کو نوازنے یا قادیانی دودھ کی رکھوالی تھا اب دوستی کی خاطر دوہری شہریت والے زلفی بخاری خصوصی مشیر ہیں اور ان کی ہمشیرہ کو بھی اہم عہدہ دے دیا گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں دودھ کی رکھوالی بلوں کے حوالے۔۔۔ اور جناب فواد چودھری صاحب کیا کہیں گے سابق دور کے بارے میں مسلم لیگ نے سید خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا کر آصف زرداری کے منصوبوں کے آڈٹ پر لگایا تھا۔