کشمیر کا ایک ہی حل

260

پاکستان کے حکمرانوں کو اس غلط فہمی سے نکل جانا چاہیے کہ بھارت کسی قسم کی معقول بات سن اور سمجھ سکتا ہے اس سے کسی قسم کے مذاکرات ہوسکتے ہیں یا اس کو دلیل کے ذریعے کوئی بات سمجھائی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر کشمیر ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے کہ بھارت نہ صرف اپنے زیر قبضہ کشمیر کو اپنا حصہ سمجھتا ہے بلکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھی اپنا ہی حصہ قرار دیتا ہے۔ بھارت میں کوئی حکومت ہو، کانگریس، بی جے پی، جنتا دل مختلف پارٹیوں کا مجموعہ خواہ کمیونسٹ پارٹی بھارت میں حکمران ہو ان سب کی پالیسی کشمیر کے بارے میں ایک ہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر بھارت میں کوئی مسلمان پارٹی بھی اقتدار میں آگئی تو اس کی پالیسی بھی یہی ہوگی کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کئی دہائیوں سے پاکستانی اور بھارتی حکمران اپنے عوام کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت کی پالیسیوں پر تو کوئی بات نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس کی تو مجبوری ہے کہ وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اس لیے وہ یہی کہے گا لیکن پاکستانی حکمرانوں کا کیا کریں جو کبھی مذاکرات کرنے کے لیے گھٹنے ٹیکنے کو تیار رہتے ہیں، کبھی ہمارا کمانڈو جنرل پرویز مشرف تھرڈ آپشن پر راضی ہوجاتا ہے، کبھی ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ جموں بھارت کو دے دیا جائے اور باقی کشمیر لے لیا جائے۔ یہ ساری باتیں پاکستانی حکمران ہی کرتے ہیں، اب ایک بار پھر بھارتی عیار حکمرانوں نے نئے نئے وزیراعظم عمران خان کو دھوکے میں گھیر لیا اور ان کے خط کے جواب میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی ملاقات کا عندیہ دے دیا۔
نئے نئے حکومت میں آنے والے عمران خان اسے بھارت کی جانب سے مذاکرات قرار دے کر ڈھول پیٹنا شروع کردیا۔ ابھی پاکستانی میڈیا میں یہ ڈھول پیٹا جارہا تھا کہ بھارتی حکومت کے ترجمان نے وضاحت کردی کہ پاکستان سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے یہ صرف ملاقات ہے اور چند دنوں میں بھارتی حکومت نے اس ملاقات کو بھی یہ کہہ کر منسوخ کردیا کہ پاکستانی حکومت دہشت گردی کی سرپرستی کرتی ہے۔ مشہور کشمیری حریت پسند نوجوان برھان وانی شہید کی تصویر کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا ہے، اس پر پہلا ردعمل یہ دیا گیا کہ یہ تو پچھلی حکومت نے جاری کیا تھا۔ گویا یہ کوئی غلطی تھی جو گزشتہ حکومت کی تھی۔ اس کے بجائے بھارت کی اس کا اصل چہرہ دکھایا جانا چاہیے تھا۔ جب پاکستان کے سنجیدہ سیاستدانوں اورواقفان حال نے اصل صورت پیش کی اور بھارت کی مکاریوں کا ذکر کیا تو حکومتی ترجمان چودھری فواد نے فرمایا کہ برھان وانی تو فریڈم فائٹر ہے، مجاہد کہتے ہوئے اب بھی انہیں خوف محسوس ہورہا تھا۔ اب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کو پروان چڑھاتا ہے، اس سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ ان کی منطق عجیب ہے کہ اسامہ بن لادن کا پاکستان میں ہلاک ہونا اس کا واضح ثبوت ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ اب بھی آزاد ہے، اور تو اور مسلسل سرحدی خلاف ورزیاں کرنے والا بھارت کہتا ہے کہ ہم نے مذاکرات کی پاکستانی پیشکش قبول کی لیکن سرحد پر ہمارے3 جوان ہلاک کردیے گئے۔ سشما سوراج کے اس الزام میں اور ان کی حکومت کے گزشتہ بیان میں تضاد ہے۔ اس وقت بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ کوئی مذاکرات نہیں ملاقات ہورہی ہے اور اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران کہا کہ مذاکرات ہورہے تھے اور کیا اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی اطلاع ملاقات کے لیے رضامندی کے بعد ہوئی تھی؟؟ بھارتی وزیر خارجہ کی تقریر اس قابل تھی کہ پاکستانی وزیر خارجہ اور پورا وفد اس تقریر کے دوران احتجاجاً واک آؤٹ کرتا ان کے تضادات کو اجاگر کیا جاتا یا پھر اس پر بھارت سے سوال اٹھایا جاتا کہ اگر اسامہ بن لادن کا قتل پاکستان میں ہوا ہے تو یہ دہشت گردی کی پاکستانی سرپرستی کا ثبوت کیسے ہوگیا۔ بہرحال وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھرپور اوربروقت جواب دیا۔ بھارتی دہشت گردی کا ثبوت تو کلبھوشن یادو کی صورت میں پاکستان میں موجود ہے۔ اس کے بعد تو کسی بھارتی رہنما کو پاکستان پر کسی قسم کا الزام لگانے سے باز رہنا چاہیے۔ بھارتی وزیر خارجہ کہتی ہیں ہمارے تین جوان کنٹرول لائن پر قتل کیے گئے۔ وہ ذرا اقوام متحدہ کے مبصرین کو مقبوضہ کشمیر تو آنے دیں، آزاد دنیا کے آزاد صحافیوں کو تو کشمیر کا دورہ کرنے دیں پھر اپنا چہرہ دیکھیں۔ دنیا کے سامنے منہ چھپائے پھریں گے۔ پاکستانی حکمران مکار بھارتیوں کی چالوں کو سمجھیں وہ کبھی مذاکرات کی چال چلتے ہیں اور پھر اس سے انکار کرتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے ملاقات پر رضا مندی اور انکار بھی اس کی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس طرح وہ ہمیشہ پاکستان کو بدنام کرتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے یہ بات بار بار بتائی جاچکی ہے اور بھارت جیسے مکار ملک کے ساتھ معاملات ہوں تو زیادہ اہمیت کی حامل بات ہے کہ یہ مسئلہ جس طرح پیدا ہوا تھا اسی طرح حل کیا جائے۔ بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوئی تھی اور اسے وہاں سے نکالے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ فوجی بھی دوچار ہزار نہیں ہیں دس لاکھ ہیں۔ ہمارے حکمران تو مذاکرات کا لالی پاپ لیے بیٹھے رہتے ہیں اور بھارت کے قدم ہر روز ہر سال آگے بڑھتے ہیں۔ اگر ہمارے نئے حکمران مدینے جیسی ریاست بنارہے ہیں تو پھر سازشی غیر مسلم ممالک اورپڑوس کے کفار کو براہ راست چیلنج کریں۔ کشمیر سے بھارتی فوج کو نکل جانے کے لیے الٹی میٹم دیں ورنہ اپنی فوج کشمیر میں علی الاعلان داخل کردیں۔ یہ مسئلہ فوج داخل کرنے سے پیدا ہوا تھا اسے فوج داخل کرکے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی الجہاد۔ لیکن اس کے لیے جرأت مند قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ قیادت سیاسی مخالفین کو تو دنیا کے کسی بھی کونے سے تلاش کرکے لانے اور اڈیالہ جیل میں بند کرنے کے دعوے کرتی ہے لیکن پاکستان کی شہ رگ کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ رہتا ہے۔ کشمیر کی جنگ محض ایک محاذ پر نہیں سفارت، سیاست، عسکری اور بین الاقوامی سطح پر بیک وقت لڑنی ہوگی۔ ہمارے میڈیا کو بھی اس حوالے سے قبلہ درست کرنا ہوگا۔ لیکن یہ سب کرے گا کون حکومت تو ٹیکس لگانے اور سیاسی مخالفین سے لڑنے میں مصروف ہے۔