میڈیا عوام کو ذہنی مریض نہ بنائے

697

 

امریکی ایسے نہیں تھے جیسے آج کل نظر آتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ امریکی شہری اور عوام۔۔۔ وہ کبھی اسکولوں، کالجوں، مارکیٹوں میں اسلحہ لے کر مسلمانوں پر نہیں تانتے تھے۔ کبھی کسی مسلمان عورت کا حجاب نہیں نوچتے تھے، وہ تو مسلمانوں کو نماز کے لیے جگہ فراہم کرتے تھے، دفاتر میں چھٹیاں دیتے تھے، پھر یہ کیا تبدیلی ہے۔ یہ وہی تبدیلی ہے جو پاکستان میں آچکی ہے۔ امریکا میں پہلے پاکستان ہی اب آئی ہے۔ امریکی حکومتوں اور میڈیا نے برسہا برس اپنے اقدامات، بیانات اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے امریکیوں کی نسلوں کے دماغ میں یہ بات بٹھائی کہ مسلمان کا مطلب دہشت گرد، حجاب کا مطلب دہشت گرد، مسجد اور مسلم کمیونٹی سینٹرز دہشت گردی کے مراکز ہیں اور جب ایک دو سال نہیں 20 سال تک یہ پروپیگنڈہ جاری رہے گا تو نتائج ایسے ہی ہوں گے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے امریکیوں کو ذہنی مریض بنانے والا امریکی میڈیا ہے اور اس کے حکمران ہی ہیں، اسی طرح پاکستان میں جو کچھ تباہی ہورہی ہے اس میں صرف سوشل میڈیا کا قصور نہیں ہے، مرکزی دھارے کا نام نہاد میڈیا ہے۔ کسی بھی خبر کو تصدیق کے بغیر آگے بڑھانا، سنسنی خیزی میں اولیت حاصل کرنا اس کو ریٹنگ قرار دینا اس میڈیا کا کارنامہ ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے کراچی میں بچوں کے اغوا کی خبریں عام ہیں اور ان خبروں کو بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے ٹی وی چینل میں اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ سب کچھ خلط ملط ہو کر رہ گیا ہے۔ اخبارات کے صحافی بھی جو کبھی کسی زمانے میں جائے وقوعہ تک پہنچ کر معلومات لیا کرتے تھے انہیں بھی اب پکی پکائی خبر یا تیار خبر مل جاتی ہے، وہ بھی جوں کی توں نیوز روم یا کنٹرولر نیوز کے پاس پہنچ جاتی ہے اور چوں کہ خبر بنی ہوئی ہوتی ہے اس لیے کون محنت کرے، یوں ہی شائع یا نشر ہوجاتی ہے۔ گزشتہ چند روز کی خبروں کو سنیں یا پڑھیں ان کو سامنے رکھیں اور تجزیہ کریں تو پتا چلے گا کہ پاکستانیوں اور خصوصاً اہل کراچی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک خبر آئی کہ 8 ماہ کی بچی کو ایک عورت اس کی ماں کی گود سے چھین کر لے گئی۔ لیکن اس خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ فلیٹ کی تیسری منزل پر رہائش پزیر خاتون سے بچی چھینی گئی۔ دوسری اور تیسری منزل اور پہلی منزل کے لوگوں کو ہی پتا نہیں چلا۔ معلوم ہوا تو تھانے اور ٹی وی والوں کو پھر تو کوئی سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ٹی وی میں آیا ہے ناں۔ لیکن ایک ہفتے بعد پتا چلا کہ اس بچی کو اس کی ماں نے خود کسی کے حوالے کیا تھا۔ نیو کراچی میں بچہ اغوا ہونے کی خبر آئی اس کے بعد جن دکانوں اور گاڑیوں کو توڑا گیا ان کا اغوا سے کیا تعلق لیکن میڈیا نے طوفان کھڑا کردیا تھا۔ رات گئے بچہ لیاقت آباد سے مل گیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اغوا کرنے والوں نے خود چھوڑ دیا ہوگا۔ لیکن اس میں بھی گڑ بڑ نکلی۔ اسی طرح اورنگی کے بہن بھائی کئی گھنٹے لاپتا رہے ٹی وی ہنگامہ پھیلاتا رہا۔ اور یہ بچے جنگل اسکول کے قریب مل گئے۔ حیدر آباد میں ایک بچی رامش یا عریش کے قتل کی خبر آئی پراسرار قتل پر خوف و ہراس پھیل گیا۔ دو دن تک یہ خبر گشت کرتی رہی کہ بچی سودا لینے گھر سے نکلی تھی ایک عورت تھیلے سے لاش نکال کر پھینک رہی تھی۔ ویڈیو فوٹیج بھی مل گئی۔ لیکن اس بچی کی قاتلہ اسی کی ماں نکلی۔ اسی طرح کورنگی 76 کا بچہ رمیز بیگ مدرسے گیا واپسی میں تاخیر ہوگئی اور پولیس تک معاملہ پہنچا۔ رات گئے پتا چلا کہ بچہ ماموں کے گھر تھا۔
ان خبروں کی بنیاد پر جو کچھ عوامی ردعمل ہوتا ہے وہ تشدد، مارپیٹ اور ہنگامہ آرائی کا ہوتا ہے۔ اس کا سبب سوشل میڈیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا موثر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نام نہاد مین اسٹریم میڈیا کی اسٹریم ہی کہیں اور سے چلائی جاتی ہے۔ اسے سچ کہنے، لکھنے اور نشر کرنے کی عاد ہی نہیں رہی ہے۔ لوگوں میں سنسنی پھیلانا اس میڈیا کا کام ہے، اس کے نتیجے میں لوگ سوشل میڈیا پر یقین کرنے لگے ہیں یہ اور بری خبر رہی ہے۔ کیوں کہ ٹی وی اور اخبار کو تو ہم اور آپ جانتے ہیں کہ کون سے ٹی وی نے کیا کیا خبر نشر کی اسے کسی ضابطے میں لایا جاسکتا ہے لیکن واٹس اپ پر آنے والے پیغامات کا تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے چلائے جارہے ہیں۔ کسی پیغام کا سر پیر نہیں ہوتا لیکن شیر کرنا لازم ہوتا ہے۔ آج کل بچوں کے اغوا کے حوالے سے جو پیغامات آرہے ہیں ان میں سے بیشتر میں نام، پتا، ایف آئی آر تھانے کا حوالہ نہیں ہے بس بچہ ہاتھ سے چھین کر بھاگنے کا حوالہ ہے۔ واٹس اپ اور فیس بک کے حوالے سے اگر اعداد و شمار جمع کرنا چاہیں تو کئی دن لگیں گے اور نتیجہ ایک ماہ میں سو بچوں کے اغوا کی صورت میں نکلے گا۔ ہر دوسرا پیغام نئے بچے کے اغوا کی خبر دیتا ہے۔ ایک روز خبر آئی کہ دلہن بیوٹی پارلر سے اغوا ہوگئی۔ نامعلوم لوگ اسے لے گئے، ہم نے اسی وقت کہا کہ گڑبڑ ہے۔ لیکن تمام اخبارات نے یہی خبر شائع کردی۔ اگلے روز صبح اغوا شدہ دلہن نے سابق منگیتر کے ساتھ عدالت میں
شادی کرلی۔ اس سارے فساد کا سبب کیا ہے، اسے کون روکے گا اور بریک کون لگائے گا۔ ہم تو امریکن نہیں ہیں امریکنوں کا تو سب کچھ ان کا میڈیا ہے، وہ اس پر یقین کرکے مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھنے لگے لیکن ہم تو مسلمان ہیں ہمیں تو حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو کہیں اس کے نتیجے میں کسی بے قصور پر نہ جاپڑو۔ اور یہاں میڈیا کی ایک غیر مصدقہ خبر پر درجنوں گاڑیوں اور دکانوں کو نقصان پہنچا، علاقہ بند ہوگیا، کسی نے کوئی سوال نہیں کیا، پیمرا سو رہا تھا، اس نے کسی ٹی وی چینل سے نہیں پوچھا کہ آپ کی وجہ سے ہنگامہ ہوا۔ کیوں نہ آپ کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ہاں وزیراعظم، عدلیہ اور فوج کے خلاف کوئی چیز آجائے تو سارے ادارے نوٹس لے لیتے ہیں۔ ایک اور خبر اس طرح واٹس اپ پر گردش کررہی ہے کہ بھارت نے ٹیکنالوجی کے ذریعے حملے شروع کردیے ہیں، ایک طرف دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا اور دوسری طرف لاہور میں مصنوعی زلزلہ پیدا کردیا۔ اس پیغام کے جواب میں ہم نے پوچھ لیا کہ بڑا بے وقوف ہے بھارت 4.6 شدت کا زلزلہ پیدا کیا جب زلزلہ لانا ہی تھا تو 8.5 شدت کا لاتا اسمبلی اور جیمخانہ تو گرادیتا۔ یہ اور ایسے پیغامات بھارت ہی سے آتے ہیں یا اس کے لوگ کہیں بیٹھ کر بناتے ہیں اور ہم شیئر کرتے ہیں۔ پوری قوم انگوٹھا چھاپ بنی ہوئی ہے، یہ آیا پیغام اور یہ گیا آگے۔ نتائج کے ہم ٹھیکیدار تو نہیں، لیکن جب خوف پھیلتا ہے تو بچوں کو گھر کے دروازے پر نہیں کھڑا ہونے دیتے، کیا میڈیا پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا کر چھوڑے گا، ایسی خبروں کے نتیجے میں حال یہ ہے کہ اگر کسی نے کسی بچے کو پیار کرلیا یا ٹافی دے دی تو اس کی پٹائی ہوسکتی ہے کیوں کہ میڈیا نے بچوں کو اغوا کرنے والوں کی یہی پہنچادی ہے۔