کسی بھی حکومت کے استحکام کا اندازہ معیشت کی پائیداری سے لگایا جاتا ہے۔ ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہو، صنعتی شعبہ ترقی کررہا ہو، عالمی منڈی میں ملکی مصنوعات کی مانگ ہو اور درآمدات کے مقابلے میں برآمدات کا گراف قابل رشک حد تک بلند ہو تو ایسا ملک عالمی معیشت میں قابل اعتبار اور خوشحال قرار دیا جاتا ہے اور قوموں کی برادری میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عالمی سیاست میں بھی اس کے موقف کی قدر کی جاتی ہے۔ اس صورتِ حال کا انحصار حکومت کی کارکردگی پر ہوتا ہے، اگر حکومت مخلص، دیانتدار، ایثار پیشہ اور اہل افراد پر مشتمل ہو اور ذاتی مفاد کے بجائے صرف اور صرف قومی مفاد حکومت کے پیش نظر ہو تو ملک میں ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے پسماندگی کے بھنور سے نکل کر ایک ترقی یافتہ ملک بن جاتا ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جو بھی حکومت آئی خواہ وہ سول ہو یا فوجی، اس نے قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور محض اپنے اقتدار کو طول اور مستحکم کرنے کے لیے عوامی مفاد کے خلاف فیصلے کیے۔ سول حکمرانوں کی کارکردگی اس اعتبار سے زیادہ مایوس کن رہی کہ انہوں نے اقتدار اور اختیار کو قومی وسائل سمیٹنے اور لوٹ مار کا ذریعہ بنایا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے لکھ پتی سے ارب پتی اور کھرب پتی ہوگئے۔ انہوں نے قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کردی، وہاں جائدادیں بنائیں اور بیرونی ذاتی اکاؤنٹس میں بے تحاشا اضافہ کیا، جب کہ پاکستان کو بیرونی قرضوں، غربت اور پسماندگی کے دلدل میں دھکیل دیا۔ جو سول حکمران گزشتہ تیس چالیس سال کے دوران یکے بعد دیگرے برسراقتدار آئے ان میں میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کا نام لیا جاتا ہے، جنہوں نے ملک کو اندھیروں میں اُتار دیا۔ کہتے ہیں کہ جب مرض لاعلاج ہوجائے تو قدرت اس کے علاج کے لیے خود میدان میں اُترتی ہے۔ چناں چہ بے نظیر بھٹو قتل کے ذریعے منظر سے ہٹادی گئیں۔ میاں نواز شریف کو پاناما لیکس نے ڈس لیا اور اب آصف زرداری کو اربوں کی منی لانڈرنگ میں مقدمات کا سامنا ہے اور ان کا انجام بھی بخیر نظر نہیں آتا۔ 2018ء کے انتخابات کی شفافیت پر بلاشبہ بہت سے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے وہ شیطانی چکر ٹوٹ گیا ہے جس نے پوری قوم کو ’’باری کا بخار‘‘ چڑھا رکھا تھا اور صرف دو پارٹیاں باری باری ملک پر مسلط ہورہی تھیں۔ اب تیسری پارٹی اقتدار میں آئی ہے جس کے لیڈر کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرے گا، لوٹی گئی قومی دولت ملک میں واپس لائے گا، میرٹ بحال کرے گا اور عوام کو سہولتیں دے گا۔
اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت قومی معیشت انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔ سابق حکمران پاکستان پر اتنا بیرونی قرضہ لاد گئے ہیں کہ اس کا سانس لینا دشوار ہورہا ہے، اسے فوری طور پر اتنے مالی وسائل کی ضرورت ہے جو اسے اس جانکنی کے عالم سے نکال سکے۔ اسے معیشت کی اصطلاح میں ’’بیل آؤٹ پیکیج‘‘ کہا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے جونہی اقتدار سنبھالا، عالمی سطح پر یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ پاکستان کو بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) وہ عالمی ساہوکار ادارہ ہے جو مقروض قوموں کو شکنجے میں کس کر ان کی سیاسی آزادی بھی سلب کرلیتا ہے۔ وطن عزیز میں عمومی رائے یہی تھی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ عمران خان کا موقف بھی یہی تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے اور معاشی بحران سے نکلنے کے لیے دوست ملکوں سے رجوع کریں گے۔
اب وزیرخزانہ محترم اسد عمر کے ایک طویل ٹی وی انٹرویو نے قومی معیشت کے بارے میں ابہام دور کرنے کے بجائے اسے مزید ابہام میں مبتلا کردیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قومی معیشت اس وقت آئی سی یو میں ہے اس کا بائی پاس ہورہا ہے، اگر آپریشن کامیاب رہا تو معیشت ٹریک پر آجائے گی ورنہ۔۔۔! اس ’’ورنہ‘‘ کا ان کے پاس کوئی واضح جواب نہیں ہے، وہ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ابھی آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن دوسری ہی سانس میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے یہ کب کہا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ ان کے فرمودات گویا اس شعر کے مصداق ہیں:
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
کیسا پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
اسد عمر بھی چلمن سے لگے بیٹھے ہیں، نہ صاف اقرار کررہے ہیں نہ صاف انکار کررہے ہیں۔ ہم جب یہ سطور تحریر کررہے ہیں تو آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آیا ہوا ہے اور وزارت خزانہ کے حکام سے مذاکرات کررہا ہے۔ آخر یہ مذاکرات کس لیے ہیں؟۔ اسد عمر کہتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو یہی مذاکرات آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کی بنیاد بنیں گے۔ یعنی جو کچھ ہورہا ہے وہ آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لیے ہورہا ہے، لیکن پوری قوم کو مغالطے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اب ہم اس راز سے بھی پردہ اُٹھاتے ہیں کہ کون سی قوتیں پاکستان کو آئی ایم ایف کے جبڑے میں پھنسا کر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتی ہیں۔ یہ وہ قوتیں ہیں جو قادیانیوں کی پشت پناہ ہیں اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی شق پاکستان کے آئین سے حذف کرانا چاہتی ہیں، وہ ایک مدت سے اس کوشش میں ہیں اسی مقصد کے لیے ایک سرگرم قادیانی کو اقتصادی رابطہ کمیٹی میں شامل کرایا گیا تھا، اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ دنیاکے چوٹی کے اقتصادی ماہرین میں شامل ہے، جسے نوبل انعام ملنے والا ہے لیکن جب قومی سطح پر شور اُٹھا اور احتجاج کی لہر ہلکورے لینے لگی تو فیصلہ واپس لے لیا گیا، بعد میں انکشاف ہوا کہ مذکورہ شخص آئی ایم ایف کے ان ماہرین میں شامل ہے جو ضرورت مند ملکوں کو اقتصادی شکنجے میں کسنے اور ان سے آئی ایم ایف کے سیاسی ایجنڈے پر عمل کرانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف آئی ایم ایف کے سیاسی ایجنڈے میں بہت سے امور شامل ہیں جن میں سے ایک قادیانیوں کو مسلمان قرار دینا بھی ہے۔ قادیانی عالمی استعماری قوتوں کے کارندے ہیں اور سب عالمی طاقتیں ان سے ہمدردی رکھتی ہیں۔ (ن) لیگ کی حکومت بھی عالمی قوتوں کی شہ پر یہی کھیل کھیل رہی تھی لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔ اب عمران خان کی حکومت کو یہی ٹاسک ملا ہے، اگر اسد عمر پاکستان کو آئی ایم ایف کے ہتھے چڑھنے سے بچانے میں کامیاب ہوگئے تو خطرہ ٹل جائے گا، ورنہ پاکستان پر تلوار لٹکتی رہے گی، قادیانیوں کا ماجرا بھی یہ ہے کہ
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں