پانی کے منصوبے کے فور کی تکمیلی مدت میں خلاف قانون اضافے کا انکشاف

166

کراچی (رپورٹ: محمد انور) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے نان ٹیکنیکل پروجیکٹ ڈائریکٹر نے پانی کی فراہمی کے عظیم منصوبے کے فور کی تکمیل کی مدت میں قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود ہی 6 ماہ کی توسیع کردی۔ منصوبے کے مکمل کیے جانے کی مدت میں اضافے کے باعث اس کی لاگت میں بھی اربوں روپے کا اضافہ ہوجائے گا جبکہ فراہمی آب کے پروجیکٹس کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ منصوبے پر جس سستی سے کام جاری ہے اس کے نتیجے میں یہ آئندہ 10 سال تک بھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔ نمائندہ جسارت کو صوبائی حکومت کے ذرائع سے حاصل ہونے والے دستاویزات اور تفصیلات کے مطابق 260 ملین گیلن اضافی یومیہ پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نان انجینئر اسد ضامن نے کے فور منصوبے کی مدت جو اس سال جون میں ختم ہوچکی تھی میں 6 ماہ کی توسیع کرکے مارچ 2019ء کردی۔ اس مقصد کے لیے پی ڈی نے مبینہ طور پر مروجہ قوانین کو بھی نظر انداز کیا۔ پی ڈی نے صرف کنٹریکٹر فرم فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کی تحریری درخواست نمبر A/2018/021 7/01 مورخہ 17 فروری 2018ء صرف 2 دن میں کارروائی کرواکر 19 فروری کو 2 سالہ کنٹریکٹ کی مدت میں توسیع کی منظوری دیدی۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے کام کے منصوبے کے کنٹریکٹ کے امور کی منظوری کا اختیار صوبائی کے پاس ہے۔ اس پروجیکٹ کو ایف ڈبلیو او کو دیے جانے کا فیصلہ بھی سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی کابینہ نے کیا تھا۔ اس لیے معاہدہ میں ہر طرح کی ترمیم و توسیع کا اختیار بھی صرف صوبائی کابینہ کو ہے مگر کے فور کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے صوبائی کابینہ کو بے خبر رکھ کر اپنے دستخط سے منصوبے کے کام کی مدت مارچ 2019ء تک بڑھادی۔ جسارت کی تحقیقات کے مطابق پی ڈی اسد ضامن مبینہ طور پر پروجیکٹ سے متعلق نقشے وغیرہ نہ کنٹریکٹر فرم کو فراہم کر پارہے نہ ہی اسے دیگر معلومات سے آگاہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے فروری سے اب تک منصوبے پر صرف 2 فیصد اضافی کام ہوسکا جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ یہ آئندہ 5 سال میں بھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں پانی کی طلب میں 12 ملین گیلن یومیہ سے 15 سو ملین گیلن یومیہ ہوجائے گی۔ معلوم ہوا ہے کہ کنٹریکٹر فرم کے حکام نے بھی منصوبے کی رفتار میں سستی کا نوٹس لیا ہے۔ تاہم انہیں بتایا گیا ہے کہ واٹر بورڈ کے پی ڈی ضروری دستاویزات فراہم ہی نہیں کر پارہے جبکہ فنی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے کنٹریکٹر فرم کی رہنمائی کر پارہے ہیں۔ یاد رہے کہ سابق پی ڈی کے فور انجینئر سلیم صدیقی نے صوبائی حکام کو دسمبر 2017ء میں دی گئی رپورٹ میں دعوٰی کیا تھا کہ پروجیکٹ پر 35 فیصد کام مکمل ہوگیا ہے لیکن فروری میں سابق ایم ڈی ہاشم رضا زیدی نے انہیں عہدے سے ہٹادیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے رولز کے تحت ٹیکنیکل نوعیت کے پروجیکٹ کا سربراہ انجینئر ہی ہونا چاہیے مگر انجینئر کو ہٹاکر کے فور پروجیکٹ کا پی ڈی نان انجینئر کو لگاکر بڑی بے قاعدگی کی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے بھی سابق ایم ڈی نے حکومت سے اجازت نہیں لی تھی۔ خیال رہے کہ کے فور پروجیکٹ دنیا کا بڑا اور ایشیا کا سب سے بڑا پانی کا منصوبہ ہے۔ اس پروجیکٹ کا تقاضا ہے کہ اس کا پی ڈی تجربہ کار انجینئر ہونا چاہیے۔ مگر وفاقی اور صوبائی حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے 25 ارب روپے مالیت کا منصوبہ اب اربوں کے زائد تک پہنچنے والا بھی ہے۔ یہ بھی یاد رہے پروجیکٹ کی مدت میں اضافے کی صورت میں مالی اور انتظامی لازمی شرائط پوری کرنے کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اس ضمن میں نمائندہ جسارت نے جب پروجیکٹ ڈائریکٹر اسد ضامن سے ان کے فون نمبر 923008218875 پر رابطہ کیا تو انہوں نے کال ریسیو کرنے سے گریز کیا۔ اس ضمن میں ایم ڈی خالد محمود شیخ کی مدد بھی لی گئی جس پر انہوں نے نمائندے کو یقین دلایا کہ ’’ابھی پی ڈی اسد ضامن کو میں کہتا ہوں کہ آپ کا فون ریسیو کریں اور پروجیکٹ کے حوالے سے سوالات کا جواب دیں‘‘ ایم ڈی کی اس بات کے بعد بھی پی ڈی جو سندھ گورنمنٹ کے ایک سابق اور بداخلاق افسر بریگیڈیر اختر ضامن کے صاحبزادے ہیں نے کال ریسیو کرنے سے گریز کیا جس پر نمائندہ اپنے مکمل تعارف کے ساتھ انہیں اسی نمبر پر ایس ایم ایس بھی کرتا رہا پھر بھی انہوں نے نہ فون کیا اور نہ ہی ایس ایم ایس کا جواب دیا۔