چینی مسلمانوں پر مظالم

563

چین میں ایغور مسلمانوں پر ظلم و ستم اب امت مسلمہ کے لیے حسا س موضوع بن گیا ہے۔ اس بارے میں پہلے بھی خبریں آتی رہی ہیں اور چین تردید کرتا رہا ہے تاہم اب جس تواتر سے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سنکیانگ میں ذہنی تربیت اورملک سے وفاداری کے نام پرمسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ابتدا میں بیجنگ حکومت نے صوبے کی مساجد پر قبضہ کرکے وہاں قومی دن کے عنوان سے پروگرام منعقد کرائے اور بڑے بڑے بینر لٹکاکر اسلامی تشخص کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی۔ اور اب پورے پورے خاندانوں کو غائب کرکے عقوبت خانوں کو بھرا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سنکیانگ میں 10 لاکھ مسلمان محبوس ہیں۔ ٹارچر سیلوں میں جلادوں کے پاس لکڑی کے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے بید ہیں۔ اس کے علاوہ جسم میں سوئیاں چبھوکر اور ناخن کھینچ کر لوگوں کو اذیت دی جاتی ہے۔ چینی حکام کا موقف ہے کہ وہ اپنے ملک میں داعش کو روکنے اور اس کے ممکنہ حملوں سے بچاؤ کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ شام، عراق، افغانستان میں داعش نے اپنے پیر جمالیے ہیں اور فرانس، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک کونشانہ بناتے رہتے ہیں۔ چین نے اب تک داعش کی موجودگی کا کوئی ثبوت پیش کیا ہے نہ اس کا موقف اتنا ٹھوس ہے کہ قابل اعتنا سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں داعش کی سفاک کارروائیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن کیا دہشت گرد تنظیم کے انسداد کے لیے پہلا اور آخری اقدام مسلمانوں کی نسل کشی ہی ہے؟ اقوام متحدہ کے مطابق ایغور مسلمانوں کے ڈی این اے اور بائیومیٹرک نمونے حاصل کرکے بیرون ملک بسنے والے رشتے داروں کو بھی حراست میں لیا جارہا ہے۔ جاسوسی کا نظام اس قدر فعال کردیا گیا ہے کہ واٹس ایپ اور سماجی ذرائع ابلاغ کو ٹریس کرکے انڈونیشیا، قازقستان، ترکی اور دیگر ممالک سے متعلقین کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ گو کہ بیجنگ نے اسے صرف ذہنی تربیت کا نام دیا ہے لیکن اقوام متحدہ کا اصرار ہے کہ پورے سنکیانگ صوبے کو دنیا سے کاٹ کر زبردستی مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔چین کی ذمے داری ہے کہ اگر وہ اپنی بات میں سچاہے تو باقاعدہ عالمی میڈیا اور اقوام متحدہ کے مبصرین کو بلا کر ذہنی تربیت کے پروگرام سے مستفید ہونے کا موقع دے۔ جب کہ حال یہ ہے کہ آزادی اظہار رائے پر قدغنیں عائد کرکے عملی طور پردنیا کو وہاں کے حالات تک رسائی سے روکا جارہا ہے۔ سنکیانگ چین کے مغرب میں سب سے بڑا صوبہ ہے۔ تبت کی طرح یہ بھی ایک نام نہاد خودمختار علاقہ ہے اور بیجنگ کی جانب سے اس پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔ وہاں ایک کروڑ 10 لاکھ ایغور مسلمان بستے ہیں، جو اپنی اصل میں ترکی النسل ہیں۔ ثقافتی طور پر وہ ایشیائی ممالک سے قریب ہیں اور ان کی زبان بھی ترکی سے قدرے مماثل ہے۔ سنکیانگ کی سرحدیں بھارت، افغانستان، پاکستان اور منگولیا سے ملتی ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ مسلمان بھائیوں کی مدد تو درکنار ان کے احوال کی خبریں بھی غیروں سے ملتی ہیں۔ پاکستان چینی قرضوں تلے دبا ہوا ہے ، اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم اپنی دینی غیر ت و حمیت کو چینی بینکوں کے پاس گروی رکھ کر مسلمان بھائیوں کو مرتے ہوئے دیکھتے رہیں۔ سعودی عرب اور یمن میں برسرپیکار عرب اتحاد کو فرقہ واریت کے رنگ میں دہشت گردی نظر آجاتی ہے۔ سنکیانگ کے معاملے پر کون سا اختلاف ہے کہ لب کشائی کی ہمت نہیں ہوتی۔ امریکا چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں 60 ارب سے لے کر 200 ارب ڈالر تک کے اضافی ٹیکس عائد کرکے ناک اونچی رکھنے میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ کی باربارتنبیہات کے باوجود اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک اپنے ہاں تجارتی سرگرمیوں میں چین کی مداخلت کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں۔ اس کے باوجود 10 لاکھ انسانوں کو خطرات میں دیکھ کر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا میں ترکی ہی ایسا ملک ہے جو فلسطین اور شام کے مظلوم مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔ لیکن اس کی جانب سے بھی سنکیانگ کے ترک بھائیوں کے معاملے میں اب تک تشویش کا اظہار بھی نہیں کیا گیا۔ عالمی برادری کایہی حال رہا تو خدانخواستہ میانمر کے روہنگیا مسلمانوں کی تاریخ کہیں سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ نہ دہرادی جائے۔