جنرل اسمبلی میں شاہ محمود کا کھڑاک

392

 

 

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بہترویں اجلاس سے قومی زبان اُردو میں زوردار خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں علاقائی اور عالمی امور بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا موقف بہت مدلل انداز میں پیش کیا۔ ماضی میں پاکستان کے حکمران اور وزرائے خار جہ جن اصطلاحات کے استعمال سے گریز کرتے رہے شاہ محمود قریشی ببانگِ دہل وہ نام اور اصطلاحات زبان پر لائے۔ جن میں ایک نام کلبھوشن یادیو کا بھی ہے جو پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کی زندہ مثال ہے۔ بظاہر تو کلبھوشن محض ایک قیدی ہے اور اکہتر سال میں پاکستان اور بھارت کی جیلیں اور تعذیب کدے ایسے قیدیوں سے کبھی خالی نہیں رہے مگر یہ پاکستان میں بھارت کی کارستانیوں کا زندہ ثبوت اور اس سارے مقدمے کی بنیاد ہے۔ اس بنیاد اور ثبوت کو پانے کے لیے پاکستان کے اداروں کو کتنی محنت اور جاں گسل جدوجہد کرنا پڑی ہوگی اس کا اندازہ شاید ہی قوم کو کبھی ہو سکے۔ یہ ساری محنت ماہی گیروں اور جاسوسی کے مجرموں کی فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ کرنے اور اسے شو کیس میں سجانے کے لیے تو نہیں ہوئی تھی مگر پاکستان کے حکمران اور نمائندے یہ نام زبان پر لانے سے کتراتے اور شرماتے رہے۔ شاہ محمودقریشی کے خطاب کا محور مقبوضہ کشمیر کے حالات اور بھارت کے مظالم ہی تھے۔ انہوں نے کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ بھی دیا جس میں بھارت کی چیرہ دستیوں کا بہت کھلے لفظوں میں ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں بھارت کے ریاستی جبر کا مکروہ چہرہ دکھایا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مقبوضہ کشمیر میں انسانوں کے قتل عام پر ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا اور کہا کہ دہشت گردی کی آڑ میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم جاری نہیں رکھ سکے گا۔ انہوں نے بھارت کو کسی جنگی مہم جوئی سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور متنبہ کیا کہ پاکستان پر حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی نے آرمی پبلک اسکو ل پشاور، مستونگ میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ہاتھ کا ذکر کیا اور کلبھوشن یادیو کو اس کی مثال قرار دیا۔
کلبھوشن یادیو کا تذکرہ اور پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کی بات اس بار کی تقریر کو ماضی کے خطابات سے نمایاں اور ممتاز بناتی ہے۔ شاہ محمو قریشی کے خطاب سے چند روز قبل بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی جنرل اسمبلی سے ہندی زبان میں اپنے خطاب میں پاکستان پر الزام تراشی کر چکی تھیں اور دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات منسوخ بھی ہو چکی تھی جس نے ماحول میں تلخی بھر دی تھی۔ سشما سوراج نے بھارت میں ترقیاتی منصوبوں اور اداروں کے نام لے کر پاکستان پر طنز کیا تھا کہ ہم نے فلاں انسٹی ٹیوٹ بنایا، فلاں یونیورسٹی بنائی پاکستان نے اس عرصے میں لشکر طیبہ اور جیش محمد بنائی اور دہشت گردی کے کیمپ بنائے۔ اپنا یہ کلام سنا کر سشما سوراج اقوام متحدہ کے ایوانوں سے بھارت چلی آئیں اور گزشتہ برس کی طرح امسال بھی جواب آں غزل سننے کے لیے ایک سہمی اور ڈری سفارتی ناری اینم گھمبیر کو پیچھے چھوڑ آئی تھیں۔ اینم گھمبیر ہی نے جواب الجواب کا حق استعمال کیا۔ پاکستان کی طرف سے جنرل اسمبلی سے قبل دوطرفہ ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو چکی تھیں۔ اس تناظر میں توقع یہی تھی کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا خطاب بہت زوردار اور کسی مصلحت سے آزاد ہوگا۔ یہ توقع بڑی حد تک پوری ہوگئی اور پاکستان نے عالمی فورم پر اپنا مقدمہ بہت جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا۔ بھارت کے حوالے سے کسی قسم کی مصلحت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ماضی میں پاکستان کی طرف سے بھارت کو خاموشی کے ساتھ بہت سی رعائتیں دی جاتی تھیں۔ جن سے شہ پاکر بھارت دنیا میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر اور خود کو مظلوم ومجبور ملک بنا کر پیش کرتا تھا۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کی دہشت گردی کا ذکر نہیں کیا جاتا تھا۔ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بھارت کی دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے لبوں پر تالے چڑھ جاتے تھے اور خدا جانے اس میں کیا مصلحت اور منطق تھی۔ شاید پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس چلانے میں بھارت تنہا نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے کوئی اور مضبوط ہاتھ بھی ہوتا تھا اسی لیے پاکستان زخم سہتا، سہلاتا مگر حرف شکایت لبوں پر لانے سے گریزاں اور اس دلدل میں قدم رکھنے سے گریز کرتا رہا۔ اب پاکستان نے بھارت کی طرف سے دہشت گردی کی تمام کوششوں اور کارروائیوں کا پہلی بار کھل کر ذکر کیا۔ جس سے بلاشبہ بھارت عالمی سطح پر دفاعی پوزیشن میں چلاگیا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارتی ترجمان نے شاہ محمود قریشی کے خطاب کے جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی مذمت اور افسوس کی تفصیل بیان کی۔
شاہ محمودقریشی نے مسئلہ کشمیر بہت جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اس مسئلہ پر اب لگی لپٹی رکھے بغیر عالمی فورم پر بات کرتی رہے گی۔ کشمیر ایک تقریر سے آگے کا معاملہ ہے۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور دفاع سے مستقل جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ اس تقریر کے بعد اب کشمیر پالیسی ازسرنو ترتیب کی متقاضی ہے۔ اس تقریر کی روح کو کشمیر پالیسی میں سمودینا اور اسے ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانا ناگزیر ہے وگرنہ اس سے بھی جاندار اور زوردار تقریریں ہواؤں میں تحلیل ہوکر اقوام متحدہ کی فائلوں کا حصہ بنتی رہی ہیں۔