اسٹیبلشمنٹ سے معاملات؟

314

ایسے متعدد لوگ جو سیاست میں زور و زر کی مدد سے در آئے اور سیاستدان کہلانے لگے، تدبر اور تحمل سے محروم ہیں۔ عالم یہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے منہ کھول دیتے ہیں اور ذرا نہیں سوچتے کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے لیے ہی نہیں اس جماعت کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں جس سے وابستہ ہوں۔ یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں بلکہ شجر سیاست کی ہر شاخ پر بیٹھے نظر آئیں گے۔ وہ وقت کب کا گیا جب سیاستدان سمجھا جانے والا فرد ایک ایک لفظ سوچ کر اور تول کر بولتا تھا کہ اس کے کہے ہوئے الفاظ کے اثرات دور رس اور دیرپا ہوں گے اور اس کے اعوان و انصار فیض اٹھائیں گے۔ پاکستان میں رائج سیاست میں ایک بھاگ دوڑ کی سی کیفیت ہے اور سیاستدانوں کی خواہش یہ ہے کہ کوئی ایسی بات کہہ ڈالو جس سے راتوں رات شہرت مل جائے اور ہر جگہ چرچا ہو۔ ایسے عالم میں حماقتیں تو ہوں گی۔ چند ہی سیاستدان ایسے ہیں جو اپنے عمل ہی نہیں اپنی زبان پر بھی قائم رہتے ہیں۔ بانئ پاکستان قائداعظم کے حوالے تو بہت دیے جاتے ہیں اور ان کی تقلید کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں لیکن قائداعظم نے کبھی اپنے الفاظ واپس لیے نہ معذرت کی۔ جو کہہ دیا اس پر قائم رہے۔ مگر آج کے بڑ بولے سیاسی رہزن، جن کو رہنما نہیں کہا جاسکتا، ایسے ہیں جو یا تو معذرت کر ڈالتے ہیں یا یہ بہانہ کرتے ہیں کہ ان کے موقف کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، ان کے انٹرویو یا ان کی تقریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ اب مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اور رہنما کہلانے والے رانا مشہود بھی اپنے انکشافات پر خبروں اور تبصروں میں ہیں۔ رانا مشہود جب پنجاب حکومت میں وزیر تھے تب بھی متنازع بن گئے تھے۔ گزشتہ منگل کو ایک ٹی وی چینل سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے معاملات ٹھیک ہو گئے ہیں، آئندہ دو ماہ بہت اہم ہیں اور پنجاب میں حکومت ہماری ہوگی۔ رانا مشہود کو اقتدار میں آنے کی بہت جلدی ہے جس کے لیے انہوں نے صرف دو ماہ دیے ہیں۔ لیکن یہ مہلت کس کو دی گئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے مراد فوج لی جاتی ہے جس سے معاملات کو درست کرانے میں رانا صاحب کے بقول شہباز شریف کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس خراج تحسین پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے رانا مشہود کی پارٹی رکنیت معطل کردی ہے اور فوری طور پر مریم اورنگزیب و دیگر نے ہاتھ کھڑے کردیے کہ یہ رانا مشہود کی ذاتی رائے ہے، پارٹی سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔ درحقیقت رانا مشہود نے اپنی زبان درازی سے اپنی ہی پارٹی کو شدید نقصان پہنچایا ہے کیونکہ انہوں نے جو ارشادات فرمائے ہیں ان کا سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے تو یہ مفہوم واضح ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت فوج نے لا کر بٹھائی ہے اور اسے احساس ہوگیا کہ جسے گھوڑا سمجھا تھا وہ خچر نکلا۔ لیکن یہ بات تو بہت سے لوگ کرتے ہیں اور یہ تاثر بڑے پیمانے پر ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ سے شہباز شریف کے معاملات ٹھیک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فوج نے ن لیگ کی حکومت برطرف کی تھی اور اب وہ ایک بار پھر ن لیگ کو اقتدار میں لا رہی ہے جس میں شہباز شریف کا بڑا کردار ہے۔ یعنی شہباز شریف اور عسکری قیادت میں معاملات طے پا گئے ہیں اور اب شہباز شریف یا ن لیگ نے اقتدار میں آنے کے لیے فوج سے مدد طلب کرلی ہے۔ اس بیان کے جس پہلو کا تجزیہ کیا جائے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اب ن لیگ فوج کا گھوڑا بنے گی اور عوام کی تائید اور جمہوری طریقے سے اقتدار میں آنے کے بجائے فوج کی مدد سے برسر اقتدار آئے گی۔ رانا مشہود جس کا طعنہ تحریک انصاف کو دے رہے ہیں وہی بات ن لیگ کے لیے باعث افتخار ہوگی۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ نے مصنوعی اکثریت دلوائی اور وہ چاہتے ہیں کہ ن لیگ سے بھی ایسی ہی اپنائیت کا سلوک ہو۔ اس گفتگو پر خود شہباز شریف شرمندہ ہو رہے ہیں۔ مخالفین تو اسے گھر کی گواہی اور بلی تھیلے سے باہر آگئی کہہ کر خوش ہو رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے پر فوج کے ترجمان نے بھی رانا مشہود کے بیان کو غیر ذمے دارانہ اور افسوس ناک قرار دیا ہے جس سے ملکی استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بیان افسوس ناک ضرور ہے لیکن اس سے ملکی استحکام کو کوئی خطرہ نہیں۔ رانا مشہود نے دیگر اداروں کو بھی لپیٹ میں لیا ہے کہ ان سے بھی معاملات طے پا گئے۔ ان کا اشارہ عدلیہ کی طرف تھا۔ عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں نے شہباز شریف کی تعریف کی ہے کہ انہوں نے خلاف ضابطہ اشتہارات شائع کرانے پر 55 لاکھ روپے واپس کر کے مثال قائم کردی۔ اس سے رانا مشہود نے من پسند نتیجہ اخذ کر لیا کہ عدالتوں سے بھی معاملات ٹھیک ہوگئے۔ ایسے سیاستدانوں میں رانا مشہود اکیلے نہیں ہیں۔ ن لیگ کے پاس رانا ثناء اللہ، مشاہد اللہ، نہال ہاشمی اور کئی گوہر نایاب ہیں۔ ایسے ہی دوسری پارٹیوں میں بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ شہباز شریف نے تو بروقت کارروائی کرکے رانا مشہود کی رکنیت معطل کردی لیکن تحریک انصاف نے چودھری فواد، فیاض الحسن چوہان اور پیپلز پارٹی نے سہیل انور سیال کو ڈھیل دے رکھی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے جس طرح ایک پولیس افسر کو وزیراعلیٰ ہاؤس طلب کرکے راتوں رات ان کا تبادلہ کروایا اس پر عمران خان کا کوئی ردعمل نہیں آیا کیونکہ یہ معاملہ ان کی موجودہ اہلیہ کے سابق شوہر سے متعلق تھا۔ چلیے عثمان بزدار تو کروڑوں روپے، تین ٹریکٹر، دو گاڑیاں اور کئی مکانات کا مالک ہونے کے باوجود ایک غریب شخص ہیں لیکن سیاستدانوں کو تو ہوش و حواس سے کام لینا چاہیے بشرطیکہ یہ صفات نایاب نہ ہوں۔