یہ کون سا ہوش مندانہ معاہدہ ہو رہا ہے؟

361

لگتا ہے پاکستان معاشی اعتبار سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے اور عالم یہ ہو گیا ہے کہ اپنے قیمتی اثاثے بھی دوسرے ملکوں کے حوالے کرنے کی نوبت آ گئی ہے۔ خبر کے مطابق پاکستان نے ادھار تیل اور مالی امداد کے عوض سعودی عرب کو ریکوڈک منصوبہ اور ایل این جی پاور پلانٹس میں کئی بلین ڈالرزکی سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔ وزارت کامرس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کو سونے اور تانبے کے ذخائر کے حامل ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کی پیشکش کر دی ہے، اس معاہدے پردستخط سعودی اعلیٰ حکام کے دورے کے دوران ہونے کا امکان ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس معاہدے پرمزید گفت وشنید اعلیٰ سعودی وفد کے آج سے شروع ہونے والے 5 روزہ دورے کے دوران ہوگی۔ پاکستان کیا، پوری دنیا اس بات سے خوب اچھی طرح واقف ہے کہ ’’ریکوڈک‘‘ سونے کی کان ہے۔ جس ملک میں سونے کی کان ہو اور وہ وہاں سے از خود سونا نکالنے کے بجائے یہ چاہے کہ باہر کی دنیا آئے اور سونا نکالنے میں مدد فراہم کرے تو اس ملک کے دیوالیے پن کا کیا حال ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے عوض اس ملک کی صرف یہ خواہش ہوکہ کچھ مدت کے لیے اسے تیل ’’ادھار‘‘ مل جائے اور ملٹی بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری ہو جائے۔
نئی حکومت معاشی لحاظ سے کتنی مشکل میں پھنسی ہوئی ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ چندروز قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے مشیرخاص محمد اجیل الخطیب کی اچانک آمد پر اسلام آباد میں کافی کھلبلی مچی ہوئی تھی جو وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے ایک دن بعد اسلام آباد پہنچے تھے۔ذرائع نے بتایا کہ سعودی اعلیٰ وفد سے مذاکرات کے دوران پاکستانی حکام کی دلچسپی تیل کی تاخیر سے ادائیگی اور ادائیگیوں کے توازن کا دباؤ کم کرنے کے طریقہ کار طے کرنے میں ہوگی کیوں کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پاکستان کا درآمدی بل4 بلین ڈالرسے بڑھ کر18.5بلین ڈالر تک بڑھ جائے گا۔ پاکستان کوآئی ایم ایف کے پروگرام سے بچنے کے لیے سعودی عرب سے فی الفور 2 ملین ڈالر کے ادھار پر تیل اور مالی امداد کی ضرروت ہے جبکہ قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کے بل کے لیے رواں مالی سال11 بلین ڈالر درکار ہیں۔ یہ صورت حال بہت گمبھیر اور نہایت سنجیدہ ہے جس پر جتنا بھی غور کیا جائے اور اس صورت حال سے باہر نکلنے کی کوشش کی جائے، پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا۔ وزرات پاور، انڈسٹری اور منرل کے مشیر احمد حمید الغامدی اعلیٰ سعودی وفدکی سربراہی کر رہے ہیں، سعودی انٹرنیشنل اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کے ادارے (ایس سی آئی ایس پی) کے ڈائریکٹر اسٹرٹیجک پارٹنرشپ اور بزنس ڈیولپمنٹ زاریا قربان بیش اور سعودی تیل کمپنی ’’آرامکو‘‘ کے حکام بھی اس وفد کا حصہ ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق سعودی وفدآئل ریفائنری کے قیام کے لیے گوادر سی پورٹ کا بھی دورہ کرے گا۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ طے پا جاتا ہے توسعودی عرب گوادر میں ریفائنری کی تعمیرکرے گا جو روزانہ ایک لاکھ بیرل تیل فراہم کرے گی۔
کاش کوئی مجھے یہ بات سمجھائے کہ اس معاہدے کے تحت کہ سعودیہ پاکستان کو کچھ عرصے تیل ’’ادھار‘‘ دے گا اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا، ہم پابند ہوں گے اس بات کے کہ وہ ہماری سونے کی کان میں حصے دار بن جائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب کو اپنا حصے دار بنا رہے ہیں تو تیل ادھار لینے والی بات کس لیے؟۔ سونے کی کان تو ہم گروی رکھ دیں اور اس کے عوض چند ماہ سعودی عرب جو ہمیں تیل کی مد میں چھوٹ دے وہ محض ادھار ہو، کیا یہ عجیب و غریب اور بے بسی و بے کسی والامعاہدہ نہیں؟۔ کہا جارہا ہے کہ اگر ریکوڈک سے متعلق معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ سعودی وفدکی آمدکا سب سے اہم نکتہ ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب حویلی بہادر شاہ پاورپلانٹ میں بھی سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور سعودی وفد پلانٹ کی سائٹ کا دورہ بھی کرے گا۔ گزشتہ حکومت بھی حویلی بہادرشاہ اور بلوکی پاور پلانٹس کی نج کاری کرنا چاہتی تھی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوا۔ قائداعظم تھرمل پاورکے لیے بھی سعودی عرب کو سرمایہ کاری کی پیشکش کی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے معاہدات کی تفصیل کبھی پبلک نہیں کی جاتی لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس بات کا کیا مطلب نکالا جائے کہ اگر ریکوڈک سے متعلق معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ سعودی وفدکی آمدکا سب سے اہم نکتہ ہوگا۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی بڑے معاہدے کے تحت ایک خاص مدت تک تو سعودی عرب کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ ریکوڈک سے سونا حاصل کر سکے گا جس کے عوض وہ پاکستان کی کئی منصوبوں میں مدد کرے گا جس کا ذکر کچھ یوں ہے کہ: ’’سعودی عرب میں پاکستان کے لیے 8سے 10ارب ڈالر کا پیکیج زیر غور آئے گا۔ 3سال کے لیے ادھار تیل کی سہولت دیے جانے کا امکان ہے۔ ادھار تیل سے پاکستان کو 3سے 5ارب ڈالر کی سہولت ملے گی جب کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی سعودی گرانٹ پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا‘‘۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دس بارہ ارب ڈالرز کا یہ پیکج کیا ناقابلِ واپسی ہوگا؟، کیا یہ پیکج کیش کی صورت میں ہوگا یا یہاں بڑی بڑی آئل ریفائنریز لگانے اور سی پیک میں سرمایہ کاری کرنے کی شکل میں ہوگا؟۔ اگر یہ پیکج نقد کی صورت میں ہے اور اسے لوٹایا نہیں جائے گا تو بات کچھ سمجھ میں بھی آتی ہے اس لیے کہ پاکستان تین برس کے لیے سونے کی کان اور سی پیک میں سعودیہ کو حصے دار بنا رہا ہے اور مسلمان شراکت داری کا مطلب خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن اگر بات صرف 3 سال چھوٹ کی ہے یعنی 3 سال تک واپسی کا مطالبہ نہ کرنے کی ہے اور 3 سال کے بعد پاکستان لی ہوئی رقم لوٹانے کا پابند ہوگا تو پھر سونے کی کان میں شراکت کو کیا سمجھا جائے؟۔ بات کوئی اتنی مشکل نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ جو ملک پاکستان کو 3 سال تک تیل ’’ادھار‘‘ دے رہا ہو تو کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کرنے کے بعد اس کے پیٹ میں جو مروڑ اٹھے گا وہ کیسے برداشت کر لے گا۔
ہم بچپن سے ایک محاورہ سنتے آئے تھے کہ ’’پڑے پارسی بیچے تیل‘‘ لیکن اس کا مفہوم کبھی سمجھ میں نہیں آسکا تھا۔ پارس ایک ایسا پتھر ہے جو اگر لوہے سے ٹکرائے تو اس کو سونا بنا دیتا ہے۔ یہ بات دل و دماغ قبول کرنے کو کبھی تیار ہی نہیں ہوئے کہ کوئی شخص اس حد تک کم علم اور جاہل ہو سکتا ہے کہ اسے اس بات کی خبر ہی نہیں ہو کہ جن پتھروں کو وہ تیل تولنے کے لیے بطور باٹ استعمال کر رہا ہے اور غربت کی زندگی گزار رہا ہے اس کے پاس ایسے انمول پتھر ہیں کہ وہ اپنی ہی کیا پوری دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ اب کہیں جاکر یہ بات سمجھ میں آئی کہ ایک شخص کیا یہاں تو ایک ملک اور اس کے عوام و حکمران سب ہی اس کم علم اور کم عقل تیلی سے بھی کہیں زیادہ کم فہم و کم شعور ہیں۔
پاکستان دنیا کا ایک ایسا بد قسمت ملک ہے جس کے پاس بے پناہ معدنی دولت ہونے کے باوجود اسے حاصل کرنے سے محروم ہے۔ ہم جو کچھ بھی دنیا سے ادھار لے رہے ہیں اس سے ہزار گنا ہم مول لے سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے ہم اس تیلی کی مانند ہیں جس کے پاس پارس تو ہیں لیکن وہ جانتا ہی نہیں کہ ان کا مصرف کیا ہے۔ آخری اطلاع کے مطابق سعودی عرب کا تکنیکی وفد اسلام آباد پہنچ گیا ہے جو وزیر خزانہ محمد عبداللہ الجندان کی آمد سے پہلے متعدد معاشی منصوبوں کو حتمی شکل دے گا۔ 3بجلی گھروں کی خریداری، ریکوڈیک، دیامر بھاشا، داسو ڈیم اور گوادر میں آئل سٹی کی تعمیر میں سرمایہ کاری اور ادھار تیل کی فراہمی سمیت متعدد منصوبوں پر بات کرے گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہم اپنے چھوٹے سے چھوٹے مکان کی تعمیر یا توسیع کے لیے کسی بینک سے بنا ضمانت ایک روپیہ بھی ادھار نہیں لے سکتے تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ہم دنیا سے کھرب ہا کھرب ڈالرز قرض بغیر کسی ضمانت کے حاصل کرتے رہے ہوں اور اب مزید کرنا چاہتے ہوں۔ قوم کو سعودی عرب سے حالیہ معاہدوں کی روشنی میں یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جب ہم اپنے اسلامی برادر ملک سے بھی کچھ امداد، وہ بھی رعایتاً لینا چاہ رہے ہیں یا لینے پر مجبور ہیں تو اس کے عوض ہم کیا کچھ اس کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں تو دنیا کے دیگر ممالک اور بینکوں سے ہم جو ادھار لیتے رہے ہیں کیا وہ کسی ضمانت یا کسی اثاثے کو گروی رکھوائے بغیر مل گئے ہوں گے؟۔ کیا یہ صورت حال تشویشناک نہیں۔ ہم حکام بالا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ قوم کے سامنے سارے حقائق لائے۔