عمران خان کی قومی یا جمہوری حکومت؟

298

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حالیہ سیشن کے دوران ایوانوں میں جو کچھ ہوا اس سے یقین ہوتا رہا کہ ملک میں جمہوریت چل نہیں رہی بلکہ دوڑنے لگی ہے مگر پھر بھی بات بگڑ نہیں رہی۔ جس سے اس شبہے کو تقویت ملی کہ یہ جمہوریت کنٹرولڈ ہے۔ خصوصاً قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی بنچوں کے بجائے حکومتی نشست سے مخالفین کو چور اور ڈاکو کہا گیا تو یقین ہونے لگا کہ جمہوریت کے اس تیسرے دور میں خاصی ’’تبدیلی‘‘ بھی آچکی ہے۔ حیرت اس بات پر بھی تھی کہ گزشتہ دس سال کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں رہنے والوں کو ان کے کیے گئے منفی اقدامات پر مبنی ’’آئینہ‘‘ دکھایا گیا تو انہیں ناگوار بھی لگا اور انہوں نے اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔ حالاں کہ اب تک حکومتیں کرنے والوں کو لوگ اکثر و بیش تر منفی ناموں ہی سے پکارتے ہیں اور تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ( اگر کسی کو لفظ تنقید چھوٹا لگے تو وہ بلا جھجک کوئی بڑا لفظ ذہن میں لاسکتا ہے)
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس قدر جذباتی ہوئے کہ لگ رہا تھا کہ وہ بے قابو ہوچکے ہیں۔ بے قابو اس لیے کہ انہوں نے مخالفین کے خلاف کھل کر نازیبا زبان استعمال کی۔ اسپیکر نے کئی بار انہیں ٹوکا لیکن وہ نہیں مانے۔ اس دوران ایوان میں فواد چودھری کے خلاف نعرے لگے اور انہیں لوٹا بھی کہا گیا۔ ایوان کا ماحول گرم ہوا اور اپوزیشن ارکان احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے۔
یہ بات گزشتہ جمعرات کے اجلاس کی ہے جب اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کے خورشید شاہ پر الزام پر مبنی ٹوئٹ کا معاملہ اٹھا دیا، انہوں نے کہا کہ کسی ثبوت کے بغیر الزام لگانے سے استحقاق مجروح ہوا ہے، وفاقی وزیر اطلاعات اس الزام کو ثابت کریں۔ بس نفیسہ شاہ کا بولنا تھا کہ فواد چودھری بپھر گئے اور کہا کہ ’’ڈاکو کو ڈاکو کہہ دیں تو یہ لوگ برامان جاتے ہیں، سب چوروں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے، قومی اداروں کو تباہ کرنے والوں اور چوروں کو پکڑیں گے۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک کے اداروں کو کھوکھلا کیا گیا، یہ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ناتجربہ کار لوگ ہیں لیکن جس طرح دو تین دہائیوں سے ملک چلایا گیا ایسے ملک نہیں چلے گا‘‘۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پی آئی اے، ریڈیوپاکستان اور پاکستان اسٹیل کو تباہ کردیا گیا، بیرون ملک ٹیکسی چلانے والے کو ڈی جی ریڈیو پاکستان بنادیا گیا، خورشیدشاہ نے پی آئی اے میں خلاف میرٹ سیکڑوں لوگ بھرتی کرائے، انہوں نے 3دن میں 800 لوگ بھرتی کیے، مشاہد اللہ نے اپنے بھائی اور کزن کو پی آئی اے میں اہم عہدوں پر فائز کرایا، جس طرح انہوں نے خزانے کو لوٹا، ملکی دولت کو عیاشیوں میں اڑایا اس طرح تو کوئی ڈاکے کے پیسے مجرے پربھی نہیں لٹاتا۔
اسپیکر نے ایک مرتبہ پھر فواد چودھری کو ٹوکتے ہوئے کہا آپ کے الفاظ حذف کردیتے ہیں جس پر ان کا کہنا تھا اسپیکر صاحب آپ ان سے محبت کا اظہار ضرور کریں، یہ داستان لوگ سننا چاہتے ہیں، مجھے بات مکمل کرنے دیں، یہ لوگ تو سارے ایسے ہی بیٹھے ہیں، مجھے پاکستان کے لوگ سنیں گے۔ فواد چودھری کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے کہا کہ ذمے دار وزیر نے گھٹیا زبان استعمال کی، غلط افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، جہاں مجرا ہوتا ہے سب کو پتا ہے، متعلقہ وزیر ایوان سے معافی مانگیں، جب تک وہ معافی نہیں مانگیں گے ایوان میں نہیں آئیں گے،
جس کے بعد پیپلز پارٹی کے اراکین نے ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ وزیر اطلاعات معافی مانگیں ورنہ ہمیں بھی مجبوراً واک آؤٹ کرنا پڑے گا۔ جس کے بعد اپوزیشن جماعتیں ایوان سے واک آؤٹ کرگئیں۔ فواد چودھری نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر معذرت کرلی اور پھر سب نارمل ہوگیا۔
اب یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ فواد چودھری وہی ہیں جو پیپلز پارٹی میں تھے تو اپنے موجودہ رہنما عمران خان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’’عمران خان کو سیاست کا کچھ اتا پتا نہیں ہے یہ تو اپنے مسئلوں میں پھنسے ہوئے ہیں شادی کے جھمیلوں سے نکلیں گے تو پھر کچھ کر پائیں گے‘‘۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ فواد چودھری کی باتوں پر کسی کو اس قدر سنجیدہ ہونا نہیں چاہیے کیوں کہ تحریک انصاف میں اگر کوئی سب سے زیادہ پارٹیوں کی خدمت کرچکا ہے تو وہ فواد چودھری ہے۔ وہ حکومتی نشستوں پر وزیر اطلاعات کی حیثیت سے جو کچھ بول رہے تھے جلد ہی تحریک انصاف کے خلاف بھی بول سکتے ہیں۔ ویسے بھی تحریک انصاف کی حکومت کو مکمل جمہوریت پسندوں کی حکومت نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ اس کے موجودہ وزراء میں اکثریت پرویز مشرف کی ’’جمہوریت کم آمریت‘‘ دور کے وزیروں کی ہے۔ اس لیے اسے پرویز مشرف حکومت کا ’’چربہ‘‘ تو کہا جاسکتا ہے مگر اسے خالصتاً تحریک انصاف کی حکومت کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ فواد چودھری شاید اس لیے زیادہ کھل کر آج کے مخالفین اور کل کے ’’اپنوں‘‘ کے خلاف بولتے ہیں کہ وہ سب کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
پرویز مشرف اور پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کے ادوار میں یہ بازگشت عام تھی کہ جلد ہی ’’قومی حکومت‘‘ قائم کی جائے گی۔ یہ قومی حکومت تین سال کے لیے ہوگی اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے خاص لوگ ہوں گے۔ پھر 25 جولائی 2018 آگیا اور سب ہی نے دیکھا کہ وہی عمران خان وزیراعظم بن گئے جنہیں 2001 میں جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم بننے کی پیشکش کی تھی۔ اس طرح بظاہر پی ٹی آئی کی حکومت منتخب کی گئی لیکن پس پردہ یہ وہی قومی حکومت ہے جس کا نقشہ سب سے پہلے پیپلز پارٹی کی مقتول چیئرپرسن بے نظیر بھٹو پیش کیا اور بعد میں پرویز مشرف نے تجویز دی تھی۔ اس حکومت کو کوئی بھی نام دے لیں مگر حقیقت ہے کہ ایک عمران خان اور اسد عمر کے ہونے سے یہ پی ٹی آئی کی حکومت سے زیادہ ’’قومی جماعتوں کی حکومت‘‘ کہلانے کا حق رکھتی ہے۔ اگر فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ یہ حکومت ’’پرامن و شفاف انتخابی‘‘ عمل کے ذریعے فوج کی نگرانی میں وجود میں آئی ہے۔ کیوں کہ 25 جولائی کے انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوئے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومت پانچ سالہ دور پورا کرتی ہے یا نہیں؟ اگر اس نے مدت مکمل کرلی تو یہ ’’قوم کے ساتھ قومی حکومت کی بڑی کامیابی ہوگی‘‘۔