فریب زندہ باد

362

تحریک انصاف کی حکومت کیا ہے اک نظر نہ آنے والی چادر سی روپہلی دھند کی کہانی معلوم ہوتی ہے‘ ایک ابہام ہے اور نہ تجربہ کاری‘ ملال اس پر نہیں‘ افسوس اس پر ہے کہ حکومت میں اصلاح کے بجائے اپنی غلطی پر اصرار جاری ہے تحریک انصاف کا معدہ بھی حکمرانی کے ذائقے قبول نہیں کر پا رہا اس کے پاس کوئی قومی اصلاح کا لائحہ عمل بھی نہیں ہے اپوزیشن کا حال بھی ایسا ہی ہے اسی لیے تو تحریک انصاف کی غلطیوں پر عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی اپوزیشن میں اگر جان ہوتی تو نواز شریف کی گرفتاری کے وقت کوئی بڑا پاور شو کر لیتی شہباز شریف کی مصالحانہ پالیسی نے خود ن لیگ ہی کو تقسیم کر ڈالا وہ اب بھی درمیا نی راہ کی تلاش میں ہیں مگر نواز شریف بہت جلد بلکہ ماہ رواں ہی میں موچی دروازہ گراؤنڈ میں بڑا سیاسی پاور شو کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں شہباز شریف اس منصوبہ بندی کا حصہ نہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ بڑے بھائی کو سزا نہ ہو مگر ان کی خواہش ہے نواز شریف سیاسی میدان چھوڑ دیں اپنے اس مقصد کے لیے وہ اسٹیبلشمنٹ کے پرانے دوستوں کو استعمال میں لانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں انہیں خبر ہے کہ پیپلز پارٹی ان کے سیاسی غلبے کے لیے کبھی کسی بڑی احتجاجی تحریک میں ان کا ساتھ نہیں دے گی جے یو آئی مدارس کے طلبہ کو سڑکوں پر لا سکتی ہے، مگر اسے لیگی قیادت پر اعتماد نہیں ہے۔ خود مسلم لیگ ن بھی نواز اور شہباز دھڑوں میں تقسیم ہے، ایسے میں کوئی بڑا احتجاجی شو کرنا ممکن نہیں۔
شہباز شریف نے پرانے دوستوں سے کہا ہے کہ ان کو ایک موقع اور دلایا جائے، سب کا جواب یہی تھا کہ آپ نے ہر دور میں وعدہ خلافی کی، محاذ آرائی کی سیاست کی، اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کی۔ صاف انکار کے بعد شہباز شریف اب بھی مائنس نواز شریف فارمولے پر عمل پیرا ہیں مگر پارٹی میں سینئر قیادت کی بڑی تعداد شہباز شریف کے درشت رویے کی بناء پر ان کو پسند نہیں کرتی اور ان کی خواہش ہے کہ اگر ن لیگ کو پھر سے موقع ملے تو قیادت و سیادت نواز شریف کے حصے ہی میں آئے۔ ن لیگی حلقوں میں بڑے وثوق سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ نیب کی تفتیش بہت کمزور ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ سے ان کو انصاف ملے گا اور نواز شریف جلد بری ہو جائیں گے، نا اہلی بھی ختم ہو جائے گی اسی لیے شہباز شریف پریشان ہیں یہ الگ بات ہے کہ اپوزیشن کی اس کمزوری کے باوجود تحریک انصاف اب تک کوئی بڑا فیصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ صبح کیے گئے فیصلوں کو رات کو بدلنے سے تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کو سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ محسوس ہوتا ہے تحریک انصاف کی قیادت نے الیکشن سے قبل اس حوالے سے کوئی ہوم ورک ہی نہیں کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ آج تک بیورو کریسی میں سے قابل اعتماد، باصلاحیت، دیانتدار افسروں کا بھی انتخاب نہیں کیا جا سکا تحریک انصاف کے ہمدرد بار بار تنبیہ کر چکے ہیں کہ ن لیگ جس کا بیوروکریسی میں اب بھی اثرو رسوخ ہے، کوئی سازش رچا سکتی ہے مگر تحریک انصاف کی قیادت جانے کس معجزے کی منتظر ہے کہ سب کچھ از خود ٹھیک ہو جائے اور وہ اپنی حکومتی مدت پوری کرتے ہوئے اپنے منشور پر عمل درآمد کرے، مگر ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا کہ معجزوں کی توقع نہیں اور تحریک انصاف دوسروں کے تجربا ت سے سیکھنے کو آمادہ نہیں۔ اپوزیشن اپنے ہی تجربات سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں اور حکومتی عہدیدار بھی خود کو تماشا بنانے میں کسی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ حماقتوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے، ہر ایک دوسرے پر احمقانہ اقدامات میں بازی لے جانے کو تلا بیٹھا ہے۔
بنی گالہ میں تبدیلی کے بڑے دعوے‘ سو دن میں ملکی قسمت بدلنے کے کرتب۔ کرپشن کا دنوں میں جڑ سے سوکھ جانا۔ بیرون ملک موجود پاکستانی رقم کی وطن واپسی کی کامیاب ترین ترکیبیں۔ قومی کرکٹ ٹیم پر سے وزیراعظم کے اثر ات کا خاتمہ۔ رشتہ داروں اور دوستوں کو وزارتوں سے پرے رکھنا۔ وزراتی پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کی دوا۔ نوجوانوں سے بھرے ایوان۔ پڑھا لکھا ایوان ہمارا۔ پروٹوکول کو غائب کرنا۔ سائیکل کو جہاز کا درجہ دینا۔ پٹرول کو پانی کی طرح عام کرنا۔ مہنگائی کی کمر توڑ دینا۔ آئی ایم ایف سے نظر چرانا۔ ملک کو خود مختار بنانا۔ دوسرے ملکوں کو قرض دینا۔ ایسے دعوے سڑک کنارے بیٹھے ہرگز کسی قسمت کا حال بتانے والے بنگالی پروفیسر نہیں کیے تھے بلکہ تحریک انصاف نے کیے تھے بہتری کے لیے کچھ کرتب اور ترکیبیں بھی بتائی تھیں لیکن۔۔۔۔۔۔ تبدیلی کہاں گئی؟ ہو سکتا ہے، تبدیلی الیکشن کی تھکاوٹ اتار رہی ہو۔ الیکشن کے بعد وہی رویہ حکومت کا ہے، جو ماضی کی حکومتوں کا رہا۔ وہی رویہ اپوزیشن کا ہے، جو ماضی میں اپوزیشن کا رہا۔ تو بدلاؤ کہاں ہے؟ عوام کا حکومت کو منتخب کر کے جلد بدگمان ہو جانا، بھی ہر گز نیا نہیں۔ ایسا بھی ہماری ہی تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر ملکی امور کو روکنا، پہلے بھی ہماری فطرت میں شامل تھا، اور اب بھی ہے۔ حکومتی اکڑ پہلے بھی تھی، اور اب بھی ہے۔ تنقید برائے تنقید پہلے بھی تھی، اور اب بھی ہے۔ عہدوں کی بندر بانٹ پہلے بھی تھی، اور اب بھی ہے۔ تو بدلا کیا ہے؟ کچھ نہیں۔ صرف طریقہ واردات ہی بدلا ہے،۔
یہ ہمسری کا دور ہے یہ عہد اقتصاد ہے
فریب کھا فریب دے‘ فریب زندہ باد