پاکستان کے حکمران طبقے کو گزشتہ 70 سال میں نہ بھارت سے دوستی کرنی آئی نہ دشمنی۔ ہمارے حکمران بھارت سے دشمنی دوستی کی طرح کرتے ہیں اور دوستی دشمنی کی طرح۔ اسی سلسلے میں عمران خان نے حد ہی کردی۔ بھارت وعدے کے باوجود دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات پر آمادہ نہ ہوا تو عمران خان بھارت سے اس طرح ناراض ہوئے جیسے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی Love Offair چل رہا تھا کہ بھارت نے اچانک ’’بے وفائی‘‘ کر ڈالی۔ حالاں کہ بھارت نے وہی کیا ہے جو وہ گزشتہ 71 سال سے کرتا آرہا ہے۔ پاکستان کے وجود پر ڈنک مارنا بھارت کی فطرت بھی ہے اور تاریخ بھی۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت کی الف ب سے بھی آگاہ نہیں۔ اس کے باوجود بھی اس سوال پر غور ضروری ہے کہ بھارت نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات سے انکار کیوں کیا؟۔
قوموں کے رویے چار چیزوں سے متعین ہوتے ہیں۔ ان کے مذہب سے، ان کی تہذیب سے، ان کی تاریخ سے، ان کے مفادات سے۔ اتفاق یا بدقسمتی سے ان چاروں عناصر میں سے بھارت کی کوئی چیز بھی ’’Normal‘‘ نہیں ہے۔ ہندوازم ایک قدیم مذہب ہے مگر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے اپنے طبقاتی مفادات کے لیے اس مذہب کو مسخ کر ڈالا ہے۔ اس کی ایک مثال ہندو ازم میں ذات پات کا نظام ہے۔ یہ نظام انسانوں کو ان کی روحانی اور نفسیاتی استعداد کے اعتبار سے چار درجوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یعنی برہمن، شتریہ، ویش اور شودر۔ اصل ہندو ازم میں یہ چاروں ذاتیں روحانی یا نفسیاتی حقیقت ہیں مگر برہمنوں نے مروجہ ہندوازم میں ان ذاتوں کو ’’نسلی چیز‘‘ بنادیا ہے۔ مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور شودر کے گھر برہمن پیدا ہوسکتا ہے مگر برہمنوں نے ذات پات کے نظام کی جو تعبیر رائج کی ہوئی ہے اس کے تحت برہمن کے گھر برہمن اور شودر کے گھر شودر ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اعلیٰ ذات کے ہندو خود ہندوازم کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اس دشمنی کا نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں شودر چار پانچ ہزار سال سے ہندوستان میں جانوروں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو برہمن اور شتریہ اور ویش اپنے مذہب اور اپنے مذہب کو ماننے والے شودروں کے ساتھ محبت اور انصاف نہیں کرسکتے وہ اسلام، مسلمان اور پاکستان سے کیا محبت یا انصاف کریں گے؟۔
ہندوؤں کی تہذیب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ ایک مکمل نظر آنے والی تہذیب تو ہے مگر اس تہذیب کا مزاج ’’آفاقی‘‘ نہیں ’’مقامی‘‘ ہے۔ یہ بات ہندوؤں کو معلوم نہیں تو مسلمانوں باالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کو کیا معلوم ہوگا کہ ہندو ازم میں سمندر کا سفر تک ممنوع ہے۔ یہ ’’مقامیت‘‘ کی انتہا ہے۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ’’مقامی‘‘ اور ’’ارضی تہذیب‘‘ انسان کو کنوئیں کا مینڈک بنا دیتی ہے۔ اس کے برعکس چوں کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اس لیے مسلمانوں کے مزاج میں بھی آفاقیت موجود ہے۔ اس بات کا ایک مفہوم یہ ہے کہ مقامیت زدہ تہذیب کبھی آفاقی تہذیب کے ساتھ ’’معمول کا تعلق‘‘ استوار نہیں کرسکتی۔
ہندوؤں کی تاریخ کا قصہ یہ ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے اور کم و بیش دو سو سال تک انگریزوں کے غلام رہے ہیں۔ چناں چہ بھارت کی ہندو قیادت غلامی کی نفسیات کے ردِعمل کو پھلانگ ہی نہیں پاتی۔ چناں چہ وہ ہمیشہ اسلام، مسلمانوں اور پاکستان سے ایک ہزار سال کی غلامی کا انتقام لینے کے چکر میں رہتی ہے۔ اس انتقام سے اسے جذباتی اور نفسیاتی تسکین مہیا ہوتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی بڑی روحانی، نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی بیماری ہے۔ کبھی یہ بیماری گاندھی، نہرو، پٹیل جیسے رہنماؤں تک محدود تھی مگر کانگریس اور بی جے پی بالخصوص بی جے پی نے اس بیماری کو ایک ’’قومی بیماری‘‘ میں ڈھال دیا ہے۔ یہ بیماری اب اتنی پھیل چکی ہے کہ اگر بی جے پی پاکستان کے ساتھ خلوص دل سے بھی معاملات طے کرنا چاہے تو اسے نفرت اور جوش انتقام سے بھرے ہوئے پچاس ساٹھ کروڑ ہندوؤں کو بات سمجھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ جائے گا۔ پاکستان کے احمق حکمران اور احمق دانش ور یہ تاثر عام کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ بھارت میں انتہا پسندی بی جے پی نے پھیلائی۔ ایسا نہیں ہے، قیام پاکستان کے وقت مسلم کش فسادات مودی یا لعل کرشن ایڈوانی نے نہیں کرائے تھے۔ اس وقت بھارت کی باگ ڈور کانگریس کے ہاتھ میں تھی اور بھارت کے قومی منظرنامے پر گاندھی اور نہرو چھائے ہوئے تھے۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا تھا وہ بھی بی جے پی کا نہیں کانگریس کا ’’کارنامہ‘ تھا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد اندرا گاندھی نے فرمایا تھا کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ اس بیان میں بھارت کی تاریخ بول رہی تھی۔ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ بھی کانگریس کے عہد میں ہوا اور بھارت میں ہونے والے پانچ ہزار مسلم کش فسادات کا بیشتر حصہ کانگریس کی حکومتوں سے متعلق ہے۔ بی جے پی نے صرف یہ کیا ہے کہ نفرت کی جھیل کو سمندر بنادیا ہے۔ بھارت کے مفادات کا معاملہ بھی عیاں ہے۔ بھارت خطے کی بالادست طاقت بننا چاہتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جس طرح نیپال اور بھوٹان بھارت کی باج گزار یا غلام ریاستیں ہیں اسی طرح پاکستان بھی بھارت کی غلامی پر فخر کرنے والا بن جائے۔ بھارت کے مفادات کا ایک پہلو یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی محاذ آرائی میں بھارت امریکا کی گود میں جا بیٹھا ہے اور پاکستان چین اور روس کے قریب ہوتا جارہا ہے۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی فاختاؤں کے اڑنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب یہ کہ پاکستان کا حکمران طبقہ امریکا اور یورپ کے جوتے چاٹنے کے بعد بھارت کے جوتے چاٹنے پر آمادہ ہوجائے۔ پاکستان کے حکمران طبقے سے کچھ بھی بعید نہیں۔
بھارت کے سلسلے میں پاکستان کے حکمران طبقے ایک بہت سنگین مرض میں مبتلاچلے آئے ہیں۔ اس مرض کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمران بھارت سے مذاکرات کے مطالبے کو ’’مذاکرات کی بھیک‘‘ میں بدل دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف ’’کارگل کے ہیرو‘‘ تھے۔ مگر کارگل کے ہیرو کو پھر روزانہ کی بنیاد پر بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتے دیکھا گیا۔ انہیں امریکی دباؤ پر مذاکرات کی بھیک ملی مگر بی جے پی کے رہنما لعل کرشن ایڈوانی نے کشمیر پر سمجھوتا نہ ہونے دیا۔ ایسا سمجھوتا جو کشمیریوں اور پاکستان سے غداری کے مترادف تھا۔ بدقسمتی سے میاں نواز شریف نے پاک بھارت تعلقات کو دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے مذاکرات کے بجائے نواز شریف، باجپائی اور نواز شریف، مودی مذاکرات میں ڈھال دیا۔ عمران خان میاں صاحب کو مودی کا یار کہتے تھے مگر انہوں نے اقتدار میں آتے ہی بھارت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اتنی بے تابی کا مظاہرہ کیا کہ مذاکرات کا مطالبہ ازخود مذاکرات کی بھیک میں تبدیل ہوگیا اور بھیک کا معاملہ یہ ہے کہ بھیک دینے والا چاہے تو بھیک دے اور نہ چاہے تو بھیک دینے سے انکار کردے۔ بھارت نے عمران خان کو مذاکرات کی بھیک دینے سے انکار کیا تو عمران خان اس طرح ناراض ہوئے جس طرح کوئی بھکاری کو آٹھ آنے پکڑائے تو بھکاری ناراض ہوجائے اور کہے آج کل آٹھ آنے میں آتا ہی کیا ہے؟
کہنے کو امریکا مذاکرات کی حمایت کررہا تھا مگر امریکی ’’ڈبل گیم‘‘ کے بادشاہ ہیں۔ وہ ایک فریق سے کہتے ہیں مذاکرات کرو اور دوسرے فریق کو مشورہ دیتے ہیں کہ مذاکرات سے انکار کردو۔ امریکا نے اس وقت یہی کیا ہے، اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی اہم ہے اور وہ یہ کہ عمران خان کا جی ایچ کیو میں جس طرح استقبال کیا گیا اس سے یہ تاثر عام ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ اس صورتِ حال نے عمران کے ’’سول کردار‘‘ کو مجروح کیا ہے اور اس کے پاک امریکا اور پاک بھارت تعلقات کے دائرے میں مضمرات ہوں گے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب تک میاں نواز شریف اور ان کا خاندان پاکستان کی سیاست میں اہم رہے گا اس وقت تک بھارت اس امکان سے چمٹا رہے گا کہ میاں صاحب یا ان کے خاندان کا کوئی فرد اقتدار میں آسکتا ہے۔ چناں چہ بھارت کو ’’سازگار ماحول‘‘ کا ’’انتظار‘‘ کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے ہمیں علامہ اقبال سے بھی رجوع کرنا چاہیے جنہوں نے صاف کہا ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دنیا میں کمزور کی بات نہ کوئی سنتا ہے نہ مانتا ہے۔ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ یہ حکمران 71 سال میں بھارت کی کوئی ایسی stake تخلیق نہیں کرسکے جو بھارت کو حقیقی معنوں میں مذاکرات پر آمادہ کرسکے۔ طاقت کس طرح کام کرتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جب سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا ہے بھارت کو خواہش کے باوجود پاکستان پر حملے کی جرأت نہیں ہوسکی ہے۔ پاکستان ایٹمی قوت نہ بنتا تو وہ بچے کھچے پاکستان کو بھی کب کا ہضم کرچکا ہوتا۔ اصول ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قوموں کے تعلقات میں اخلاقیات اور امن کی باتیں وہی قوم کرتی ہے جو کمزور ہوتی ہے۔
پاک بھارت تعلقات میں حالیہ کشیدگی کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے نام لیے بغیر نریندر مودی کو چھوٹا آدمی قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ میری پوری زندگی یہ دیکھتے ہوئے گزر گئی کہ بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ فائز ہوتے ہیں۔ عمران خان نے بات بالکل ٹھیک کہی مگر انہوں نے نریندر مودی کے چھوٹے پن کا تعین اس بات سے کیا کہ وہ کبھی ’’چائے والے‘‘ تھے۔ نریندر مودی کی شخصیت میں صرف ایک ہی تو خوبی ہے اور وہ یہ کہ وہ چائے والے تھے اور محنت کرتے ہوئے ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی والے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ محنت میں عظمت ہے اور چائے فروخت کرنے سے کوئی چھوٹا آدمی نہیں بنتا۔ مودی اگر ’’چائے والے‘‘ ہیں تو عمران خان کون سے علامہ اقبال ہیں۔ وہ بھی ’’گیند والے‘‘ اور ’’بلے والے‘‘ ہیں۔ عمران کو مودی کا چھوٹا پن ثابت ہی کرنا تھا تو انہیں بتانا چاہیے تھا کہ مودی کو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت ہے۔ ان کی جماعت نے دن دہاڑے بابری مسجد شہید کی ہے۔ مودی نے گجرات میں 3 ہزار مسلمانوں کو قتل کرایا ہے۔ ان سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کے مرنے سے دکھ نہیں ہوتا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر آپ کی گاڑی کے نیچے کتے کا پلّا آجائے تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔ یعنی مودی کے نزدیک مسلمان کی اوقات کتے کے پلے کے برابر ہے۔ مودی اپنے اس چھوٹے اور گھٹیا پن کی وجہ سے اتنے بدنام تھے کہ امریکا انہیں برسوں تک ویزا دینے سے انکار کرتا رہا۔ افسوس کہ عمران کو ان حقائق میں سے کوئی چیز یاد نہ آئی۔ انہیں یاد آیا تو یہ کہ مودی کبھی چائے والے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمران انسانوں کو پیسے اور پیشے سے Define کرتے ہیں۔ یہ بجائے خود ایک چھوٹا پن ہے۔