کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ کوئی ملک آزاد بھی ہو اور غلام بھی، لیکن آج بھی ہم جدید دور میں کچھ ایسا دیکھ سکتے ہیں، کچھ ممالک ہیں جو غلام ہیں، کچھ اپنی انا کے غلام ہیں اور کچھ برتری کے زعم میں مبتلا ہیں، اور کچھ حماقت کی وجہ سے نقصان برداشت کر رہے ہیں، متعدد ایسے بھی ہیں جو عالمی ساہو کاروں کے سر پر جی رہے ہیں، جیسے بھارت، جنوب ایشاء میں یہی ملک امن کا دشمن ہے، انسانی حقوق کی پامالی کر رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں آگ جلائے بیٹھا ہے جس سے کھیت جل رہے ہیں اور سیبوں کے باغات راکھ بن رہے ہیں، اسکول کوئلہ بن رہے ہیں اور قبرستان آباد ہورہے ہیں اس کے باوجود چاہتا ہے کہ امریکا بھی اسی خطہ میں رہے اور اس کا سرپرست بنا رہے لیکن اسے علم نہیں کہ آج طاقت کا زمانہ نہیں ہے۔ سفارت کاری کا دور ہے۔ مفادات کی نگہبانی کا وقت ہے ابھی کل کی بات ہے کہ اوائل 2017ء میں جب امریکا کے نئے صدر، وائٹ ہاؤس میں تشریف لائے اور انہوں نے کابل میں اپنی سپریم ملٹری پاور کے سامنے چند ہزار اسلحہ بدست طالبان کو دیکھا تو از راہِ تکبّر ان کے خلاف سخت ایکشن لینے کے احکامات جاری کیے اور یہی نہیں بلکہ پاکستان، انڈیا، ایران ان کے بارے میں بھی ایک نئی پالیسی وضع کی اور اس کا اعلان کیا لیکن کیا ہوا؟ جب اس کو روبہ عمل لانے کی کوشش کی تو دنیا کی طاقت ور سمجھی جانے والی امریکی فوج نے فیصلے اور اس پالیسی کو نافذ کرنے سے معذرت کرتے ہوئے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ امریکی فوج کے اس فیصلے کے سامنے سی آئی اے اور پینٹاگون کی رپورٹیں دھری کی دھری رہ گئیں سابق صدر اوباما کے آخری دور میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ دسمبر 2014ء تک تمام امریکی اور ناٹو ٹروپس واپس بلا لیے جائیں گے۔ دسمبر 2014ء تک صرف 8700 امریکی فوجی افغانستان میں باقی رہ گئے بتایا گیا کہ وہ ساڑھے تین لاکھ افغان آرمی اور اڑھائی لاکھ افغان پولیس کو ٹریننگ دے کر ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں گے اور اس کے بعد واپس چلے جائیں گے لیکن اس کے دو سال بعد اوباما چلے گئے مگر افغانستان میں امریکا کی رسوائی جاری ہے۔
اوباما کے بعد ٹرمپ کو دو سال ہونے والے ہیں ان کی پشت پر افغانستان میں رسوائی کا بوجھ ہے 18 برسوں کی رسوائی ایک ریکارڈ ہے سی آئی اے اور پینٹاگون اور مزیدکتنے 18سال گزاریں گے؟ مگر امریکی سپریم پاور کا بھرم پھر بھی نہیں رہے گا اب امریکا نے وہاں سے فوج باہر نکال کر جنگ کی رسوائی کسی دوسرے کے ہاتھ بیچنے کی منصوبہ بندی کی ہے سب سے پہلے اس افغان وار کو ایک نجی عسکری تنظیم کے حوالے کیا جائے گا اب کابل مستقبل میں بلیک واٹر کے سپرد کیا جارہا ہے اس میں تجربہ کار ریٹائرڈ افسروں اور جوانوں کو بھرتی کیا جائے گا ان کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کیا جائے گا، باقاعدہ جدید ہتھیاروں اور گولہ بارود پر ٹریننگ دی جائے گی اور جب ٹریننگ کا مجوزہ دورانیہ پورا ہو جائے گا تو ان کو افغانستان میں طالبان کے خلاف لانچ کرکے ریگولر آرمی اور ائر فورس کو وہاں سے نکال لیا جائے گا۔ اس تنظیم کا سارا خرچ حکومت اور بلیک واٹر کے درمیان طے پارہا ہے روٹی، کپڑا، مکان سب ملے گا۔
بلیک واٹر تنظیم کا بانی ایرک پرنس (Erik Prince) نامی ایک سابق نیوی آفیسر ہے بلیک واٹر تنظیم کی کارکردگی کا امتحان افغانستان، پاکستان اور عراق میں ہوچکا ہے پاکستان آرمی نے جلد اس کا سراغ لگا کر اس کو ملک سے باہر نکال دیا تھا ایرک پرنس نے امریکی انتظامیہ کو رپورٹ پیش کی ہے جس میں ناکامی کی وجوہات پیش کی تھیں کہ ایک جنگ کے ٹمپو کا تسلسل بار بار توڑ دیا جاتا ہے۔ بگرام، شیندند اور قندھار کے فضائی اڈوں کو استعمال کیا جائے کابل حکومت سپورٹ فراہم کرے، افغانستان کے ایک معروف ٹی وی چینل ’’طلوع‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایرک پرنس نے کہا ہے کہ: ’’میں ان تینوں قلتوں کا سدِباب کروں گا اس نے کابل انتظامیہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ افغان قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کرے گا۔ لیکن اس اسکیم کی افغانستان کی طرف سے شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ صدر اشرف غنی نے ابھی حال ہی میں ایک بیان دیا کہ کرائے کے فوجی وہ کام ہر گز نہیں کر سکتے جو سرزمینِ افغانستان کے سپوت کر سکتے ہیں یہ سب کچھ اپنی جگہ، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امریکا نے کیا کیا پیش بندیاں کر رکھی ہیں جس طرح بھارت کشمیر میں برباد ہورہا ہے کچھ بھی کرلے، اسی طرح کابل میں امریکا برباد ہوکر رہے گا۔