اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ابتدائی طور پر پاکستان اور انڈیا کے وزرائے خارجہ کی ملاقات طے تھی۔ لیکن انڈیا کی وزارت خارجہ نے اس ملاقات کی منظوری کے اعلان کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی اسے منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کی وجوہات انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے دو بتائیں۔ ایک یہ کہ کشمیر میں ان کے تین سیکورٹی اہلکاروں کو قتل کردیا گیا اور دوسرے پاکستان نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے اعزاز میں بیس ڈاک ٹکٹوں کا سیٹ جاری کردیا۔ بقول انڈین وزارتِ خارجہ ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سدھرے گا نہیں‘‘۔
اہم بات یہ ہے کہ اس ملاقات سے کسی ٹھوس پیش رفت کی توقع نہیں تھی۔ بس ملنے کے فیصلے ہی کو ایک بڑی کامیابی مانا جارہا تھا۔ اس کامیابی کا ڈھول پیٹنے میں عمران خان کی حکومت اور اس کے ایما پر پاکستانی میڈیا انہماک سے مشغول تھا۔ ابھی یہ کام زور و شور سے جاری تھا کہ بھارتی حکومت کے ترجمان نے وضاحت کی کہ پاکستان سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، صرف ملاقات طے ہوئی ہے اور چوبیس گھنٹوں کے اندر اس ملاقات کو بھی منسوخ کردیا گیا اور الزام پاکستان کی حکومت پر ڈال دیا گیا۔ مذاکرات کے ڈول یا ڈھول کا اعلان کرکے خود ہی اُس کو منسوخ کردینا بھارتی حکومت کا وتیرہ بن گیا ہے۔ لیکن جس طرح بھونڈے انداز میں یہ سب کیا گیا یہ بھی ایک عجب تماشا ہے۔ انڈین وزیر خارجہ کہتی ہیں کہ ہم نے مذاکرات کی پاکستانی پیش کش قبول کی لیکن سرحد پر ہمارے تین جوان قتل کردیے گئے۔ اول پہلے ملاقات اور پھر مذاکرات کا اعتراف سوالیہ نشان ہے۔ پھر وہ روز کنٹرول لائن پر معصوم کشمیریوں، ننھے بچوں اور خواتین کو قتل کررہے ہیں۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کے وفد کو آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ بے انتہا مظالم کہ جس کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ کا نمائندہ آنسوؤں سے رو پڑتا ہے۔ بتاتا ہے کہ اب تک وہاں ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی جاچکی ہے اور کوئی روکنے والا نہیں۔ حقیقت میں اقوام متحدہ کے نمائندے کو رونے کی نہیں بھارتی حکومت کو الٹی میٹم دینے کی ضرورت تھی۔ جس کے لیے مقبوضہ کشمیر کی قیادت نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری کو لکھا کہ بھارت مسلسل پرامن حل سے انکار کررہا ہے۔ جس کی وجہ سے کشمیر اور اس کے عوام ہی کو نہیں پورے جنوبی ایشیا کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا وہ بھارت کے دورے کے دوران ملک کی قیادت پر مسئلہ کشمیر کے فوری اور پائیدار حل کے لیے زور دیں۔ تا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کو یقینی بنانے کے لیے کشمیری نمائندوں اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرے۔
لیکن بھارت پہلے ملاقات کے لیے راضی ہوا تو یہ کہہ کر کہ یہ صرف ملاقات ہے اور پھر انتہائی نامعقول بہانوں سے اُس ملاقات کو بھی منسوخ کردیا۔ حقیقت میں بھارتی قیادت دنیا سے منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔ وہ اقوام متحدہ کے نمائندوں کو کشمیر کے دورے پر آنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں، وہ آزاد دنیا کے صحافیوں کو کشمیر کا دورہ کرنے کے لیے آنے نہیں دیتے۔ وہ صرف مذاکرات کے پردے میں اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اس پردے سے منہ نکال کر پاکستان پر الزامات عاید کرتے ہیں۔ اور پھر مذاکرات کی ریت میں منہ چھپا لیتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ انکار کے لیے جو جواز تراشے گئے وہ بھی انتہائی مضحکہ خیز تھے۔ تین فوجی اور ڈاک ٹکٹ۔۔۔ ہزاروں کشمیریوں کو شہید، معذور اور ہزاروں خواتین کی عصمتیں لوٹنے والے کس منہ سے تین فوجیوں کی موت کو بہانہ بنارہے ہیں اور پھر ڈاک ٹکٹ۔۔۔؟؟
آئیے دیکھتے ہیں ان ڈاک ٹکٹ پر کیا ہے؟؟
یہ ڈاک کے کل بیس ٹکٹ ہیں۔ جن پر بیس تصویریں ہیں جن کو نام دیا گیا ہے ’’مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی داستان‘‘ ان تصویروں میں اُن معصوم کشمیریوں کی تصاویر ہیں جو کیمیکل ہتھیاروں اور چھروں والی گنوں کا شکار ہوئے، عورتوں پر ظلم، معصوم شہریوں پر پولیس اور فوج کے مظالم، کشمیریوں کے احتجاج کی تصاویر ہیں۔ ایک تصویر برھان وانی کی ہے جو کشمیریوں کے لیے آزادی کا نشان تھے۔ حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے برھان وانی انڈین فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اُن کی شہادت سے کشمیر میں ایک انقلاب پیدا ہوا۔ ایک ایسا انقلاب جس نے ہر کشمیری بچے، بوڑھے اور جوان کے دل میں آزادی کے لیے اُسی طرح لڑنے کی تڑپ پیدا کی
اور دوسری طرف بھارت سے نفرت کی آگ۔۔۔ جس کی تپش بھارتی حکومت کے نمائندے بڑی شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ ایک دوسرے ٹکٹ پر کشمیری نوجوان فاروق احمد ڈار کی تصویر ہے جس کو بھارتی فوج کی گاڑی کے بمپر سے باندھا گیا تا کہ اُسے انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ان تمام تصاویر کے نیچے ایک لائن درج ہے ’’کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا‘‘۔ یہ اسٹامپ بیس ٹکٹس پر مشتمل ہیں اور باہر کے ملکوں میں چھ ڈالر میں فروخت کے لیے پیش کیے گئے۔ بیس ہزار کی تعداد میں شائع کیے گئے یہ ٹکٹ تقریباً فروخت ہوچکے ہیں۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی طرف سے ان ٹکٹس کی اشاعت پر پہلی وضاحت کمزور آئی کہ ’’یہ تو پچھلی حکومت نے جاری کیے تھے‘‘۔ کیا یہ کوئی غلطی تھی؟؟ یہ تو بھارت کا مکروہ چہرہ تھا جس کو دنیا کو دکھانا لازم تھا۔۔۔ اور ہے۔ بار بار پوری وضاحت کے ساتھ دنیا کو اصل صورت حال سے آگاہ کرنا چاہیے، کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا غیر انسانی سلوک میڈیا کے موثر استعمال سے واضح کیا جاسکتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کے لیے پاکستانی بھرپور انداز میں آواز اٹھائیں۔ بھارتی فلموں اور ڈراموں کا بائیکاٹ کریں اور میڈیا کو مجبور کریں کہ وہ اپنے چینلوں پر انہیں پروموٹ نہ کریں۔ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات سے حل کرنے میں بھارت سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہوگا۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کے آنسو بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کے لیے تو بس یہ الٹی میٹم ہونا چاہیے کہ بھارت اپنی دس لاکھ افواج کشمیر سے نکالے اور کشمیری استصواب کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔