خواہش اور فرمائش کااتصال

344

عوامی جمہوریہ چین نے سلامتی کونسل میں جیش محمد نامی تنظیم کے سربراہ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی قرار دادکو ایک بار پھر ویٹو کردیا ہے۔ بھارت کی طرف سے پیش کی گئی اس قرارداد کو امریکا، برطانیہ اور فرانس کی حمایت حاصل تھی جب کہ چین نے اس قرارداد کی حمایت سے یہ کہہ کر انکار کیا اس معاملے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلاف رائے ہے اور جب تک دونوں ملک اس پر متفق نہیں ہوتے چین اس کی حمایت نہیں کر سکتا اگر پاکستان اور بھارت بھی اس پر متفق ہوجائیں تو چین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کسی دوطرفہ مسئلے میں فریقین کا متفق ہوکر درخواست کرنا ایک ایسا عذر ہے جو اقوام متحدہ اور امریکا کشمیر کے معاملے میں اپنائے ہوئے ہیں۔ جب بھی ان سے اس معاملے میں ثالث اور سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی بات کی جائے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ جب تک دونوں فریق ان سے مل کر ثالثی کی درخواست نہ کریں تیسرا فریق کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اب مسعود اظہر کے معاملے میں چین نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔
مسعود اظہر،حافظ سعید اور اسی طرح کچھ نام بھارت کی آنکھوں میں کھٹکنے والے وہ خار ہیں جنہیں امریکا اپنے اثر رسوخ اور دھونس کے ذریعے نکال کر بھارت کی تکالیف اور پریشانیوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کو ان ناموں سے براہ راست کوئی شکایت اور گلہ نہیں۔ ان میں سے اکثر نے امریکا کے مفادات کو کھلے بندوں چیلنج نہیں کیا۔ امریکا کے خلاف کسی عسکری کارروائی میں شریک نہیں ہوئے۔ امریکی مفادات کی مخالف القاعدہ کے ساتھ براہ راست وابستگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ان کے القاعدہ کے ساتھ روابط کی کوئی سن گن ملی ہے۔ یہ شخصیات اس خطے کی سیاست، تنازعات اور پالیسیوں کی پیدوار ہیں۔ ان کا وجود پاکستان اور بھارت کے درمیان حد درجہ اُلجھے ہوئے حل طلب مسائل سے ہے جن میں مسئلہ کشمیر سر فہرست ہے۔ ان تنظیموں اور شخصیات کا کوئی گلوبل ایجنڈا نہیں رہا۔ اخباری بیانات سے آگے بڑھ کر انہوں نے اپنی سرگرمی کو کسی دوسرے براعظم بلکہ تیسرے ملک تک پھیلانے کی کوشش نہیں کی۔ امریکا تو دور کی بات یہ عرب اور خلیجی تنازعات سے بھی اپنا دامن بچا کر رہیں۔ اس کے باوجود امریکا نے انہیں محض بھارت کو خوش کرنے اور پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تنازعات تاریخی سچائی ہیں۔ برطانیہ، امریکا، روس جیسے طاقتور ممالک اور اقوام متحدہ تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی موقع پر ان تنازعات میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان اور بھارت کے تاریخی مسئلے کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنا بہت سطحی سوچ ہے مگر اس کا کیا کیجیے امریکا یہ سوچ اپنا چکا ہے۔ وہ صرف بھارت کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کو دیوار سے لگا چکا ہے۔ مسعود اظہر ہوں یا حافظ سعید ان سے بھارت کو تکلیف ہے اور بھارت کا خیال ہے کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں حافظ سعید کا نیٹ ورک بھارت کے اندر اس کا بھرکس نکال سکتا ہے۔ امریکا اسے نصر میزائل جیسا اسٹرٹیجک ہتھیار سمجھ رہا ہے اور بھارت بھی اسی خوف میں مبتلا ہے۔ بھارت کا خوف دور کرنے کے لیے امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان ہر اس تنظیم کو پابندیوں میں جکڑ ڈالے جس کسی دوطرفہ تصادم میں بھارت کے خلاف کردار ادا کر سکتی ہے اور ہر اس شخص کو تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے جو ایسے موقع پر کوئی ٹھوس کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ بھارت کی خواہش ہے جو اکثر فرمائش بن کر امریکیوں کی زبان سے چھلک پڑتی ہے۔ امریکا مغربی دنیا کو مدت دراز سے ڈنڈے سے ہانک رہا ہے۔ امریکا پاکستان کو بھارت اور افغانستان کی عینک سے دیکھ رہا ہے اور عینک کا نمبر بدل جانے سے کئی مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حالیہ دورۂ امریکا کے دوران ایک انٹرویو میں بہت پتے کی بات کی ہے کہ امریکا پاکستان کو پاکستان کے طور پر دیکھے کسی دوسرے ملک کے زوایے سے نہیں۔ مگر اس خطے کی سیاست کو قریب سے دیکھنے والے ممالک بالخصوص چین اس معاملے کو قطعی مقامی تنازعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ دہشت گردی صرف وہی نہیں جس سے امریکا اور بھارت کے مفادات کو خطرہ ہو۔ دہشت گردی کی یہ محدود تشریح ایک حد تک امریکا اور بھارت کو فائدہ تو دیتی رہی ہے مگر اس سے منظر تبدیل نہیں ہوا۔ امن عالم کو لاحق خطرات اگر حقیقی تھے تو وہ آج بھی موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اقتصادی اور سفری پابندیوں اور امریکا کی طرف سے سروں کی قیمت مقرر کرنے کے باجودیہ خطرات کم نہیں ہوئے۔ چین اور پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے خطرات کو بھی دہشت گردی سمجھنے کا تکلف کیا جاتا تو آج حالات خاصے مختلف ہوتے۔ حالات آج بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ دہشت گردی کی جامع تعریف کی جائے اور اس اصطلاح کو اصل تناظر اور سیاق وسباق کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ نائن الیون کی گرد اب بڑی حد تک بیٹھ گئی اور زخم مندمل ہو رہے ہیں۔ انتقام اور غصے کو اب بڑی حد تک قرار آرہا ہے۔ ایسے میں رویوں اور پالیسیوں میں حقیقی تبدیلی نہ آئی اور دہشت گردی کے اچھی اور بری کے خانوں میں بانٹنے کا عمل ختم نہ ہوا اور دہشت گردی کی یک طرفہ تعریف کا سلسلہ یونہی جا ری رہا تو ممالک اور قومیں بس اسی طرح بھول بھلیوں میں بھٹکتی رہیں گی۔