اسٹیٹ بینک کی حالیہ مانیٹری پالیسی

252

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ستمبر کے آخری ہفتے میں آنے والے دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے۔ معیشت کے استحکام، توازن اور نمو کے لیے ماہرین معیشت کے ہاتھ میں دو اہم ذرائع ہوتے ہیں ایک مالیاتی پالیسی (Fiscal Policy) اور دوسری زری پالیسی (Mounetary Policy) ان دونوں پالیسیوں کے وسیلے سے حکومت کے پاس مختلف متبادل (options) ہوتے ہیں جن کے ذریعے معیشت میں بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہتری کا مطلب کیا ہے۔ بہتری کا مطلب یہ ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار میں نمایاں اضافہ کیا جائے، بیروزگاری کی شرح میں کمی کی جائے، سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں حرکت پیدا کی جائے، مہنگائی کی شرح میں کمی کی جائے، معاشی بے یقینی کی فضا کو کم کیا جائے، برآمدات میں واضح اضافہ کیا جائے، وغیرہ وغیرہ۔ فہرست بہت لمبی ہے جن میں سے چند کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مسئلہ ایک یہ ہے کہ معاشی سرگرمیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔ چناں چہ جب آپ ایک قدم بہتری کی طرف اٹھاتے ہیں تو اس کے کئی منفی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ خصوصاً پاکستان جیسے ملک کے حالات میں جہاں بڑے بڑے معاشی مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ایک طرف تجارتی خسارہ بلند حدوں کو چھو رہا ہے دوسری طرف سرکاری شعبے میں چلنے والے اداروں کو خسارہ ایک ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے۔ اخراجات میں اضافے اور ٹیکسوں میں کمی کے باعث مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 7 فی صد ہوگیا ہے۔ نتیجتاً روپے کی قدر میں کمی ہورہی ہے جس سے درآمدی اشیا مہنگی ہورہی ہیں، ملک کی اشرافیہ ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہے، اخراجات پورے کرنے کے لیے غریب اور متوسط طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
اِن حالات میں پاکستان کے مرکزی بینک نے 29 ستمبر 2018ء کو جو مانیٹری پالیسی ملک کے سامنے پیش کی ہے اس میں اہم بات یہ ہے کہ شرح سود میں ایک فی صد اضافہ کرکے 7.5 فی صدی سے 8.5 فی صد کردیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے جو 3.2 فی صد سے 5.1 فی صد ہوگئی ہے اور اس کی چار وجوہات پالیسی بیان میں بتائی گئی ہیں۔ اول بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور پاکستان اپنی ضرورت کا بڑا تیل درآمد کرکے پورا کرتا ہے، تیل مہنگا ہوگا تو ہر چیز مہنگی ہوجائے گی۔ دوم حکومت نے سیکڑوں درآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عاید کی ہے جس سے یہ تمام اشیا مہنگی ہوجائیں گی۔ سوم روپے کی قدر میں کمی کے باعث بھی اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ چہارم گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے بھی مہنگائی کا امکان ہے۔
بلند شرح سود کے معیشت پر بے انتہا منفی اثرات ہوتے ہیں، اگر آپ دنیا کا جائزہ لیں تو بہت کم ممالک میں 8.5 فی صد ڈسکاؤنٹ ریٹ نظر آئے گا۔ اونچی شرح سود کی وجہ سے کاروباری لوگ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے بینکوں سے بہت کم قرضہ لیں گے۔ دوسرے الفاظ میں پیداواری لاگت بڑھ جائے گی جو پاکستان میں پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ اس سے پیداواری سرگرمیاں سکڑ جائیں گی اور معاشی ترقی کی رفتار کم ہوجائے گی جو بہت مشکل سے کئی سال بعد 5.7 فی صد تک پہنچ گئی تھی اب اس میں کمی کے اندازے لگائے جارہے ہیں اور 4.8 فی صد سے لے کر 5.00 فی صد کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف حکومت اپنی ضرورت کے مطابق ملکی مالیاتی اداروں سے جو قرضے حاصل کرے گی اس کی لاگت بھی بڑھ جائے گی۔
دوسری طرف حکومتی اقدامات یا اعلانات ہیں جنہوں نے ایک بے یقینی کی فضا پیدا کردی ہے۔ مثلاً پہلے کہا گیا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا پھر اضافہ کردیا گیا، پھر کہا گیا کہ ہم آئی ایم ایف کے پیچھے نہیں چھپیں گے اب پورا پاکستان دیکھ رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے وزارت خزانہ بھی مذاکرات کررہی ہے، اس کے بعد آئی ایم ایف والے ایف بی آر (FBR) کا بھی دورہ کررہے ہیں۔ فنانس بل میں نان فائلروں کو جائداد اور گاڑی خریدنے کی اجازت دے دی گئی جب اس پر شدید تنقید ہوئی تو دوبارہ پابندی عائد کردی گئی۔ البتہ یہ خوش آئند ہے کہ اندرون اور بیرون ملک ٹیکس نادہندگان، نان فائلرز اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے لیکن اسے پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے اور لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس آنی چاہیے۔
حالیہ اقتصادی کمیٹی کی میٹنگ میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ موخر کردیا گیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو ضمنی انتخابات میں فتح حاصل کرنی ہے۔ لگتا ہے الیکشن کے بعد یہ اضافہ کردیا جائے گا۔ اس طرح پاکستان میں بجلی کے نرخ جو پہلے ہی بہت زیادہ ہیں ان میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ جو معیشت کے لیے مزید مشکلات پیدا کردے گا۔ اسی طرح سعودیہ سے ادھار پر تیل خریدنے کی خبریں عام ہوئیں اور بعد میں یہ خبریں ہوا ہو گئیں۔
حکومت کو چاہیے کہ کوئی اقدام یا اعلان یا دعویٰ کرنے سے پہلے اس پر اچھی طرح سوچ بچار کرلی جائے اور پھر اس کا اعلان کیا جائے ورنہ ایک دعویٰ کرنے پر اس کو واپس لینے سے عوام میں حکومت کا اعتبار اور وقار ختم ہوجائے گا۔