سرسید کے تصور فطرت کے تفصیلی جائزے سے یہ حقیقت آشکار ہوچکی کہ سرسید جس تصور فطرت کے قائل تھے اور جس تصور کی بنیاد پر وہ قرآن پاک کی تشریح و تعبیر کررہے تھے اس کا اسلامی فکر سے کیا، عیسائیت، چینی تہذیب یہاں تک کہ یونانی فلسفے کے کلاسیکل عہد سے بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ تصور سراسر عہد جدید کی پیداوار تھا۔ اسی عہد جدید کی جو خدا اور مذہب کا منکر ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ سرسید حق کو باطل کی مدد بلکہ اس کے پیمانے سے سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ بلاشبہ ان کے ہاتھ دنیا تو آگئی مگر دین کی پوری روایت ان کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ سرسید کی دنیا بھی کیا دنیا تھی اس میں غلامی کا سورج تھا۔ غلامی کے چاند ستارے تھے۔ غلامی کی آب و ہوا تھی۔ غلامی کی فکری اور ذہنی غذا تھی۔ خیر یہ ایک موضوع ہے جہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ سرسید کے تصور فطرت اور مذہبی روایت کے تصور فطرت کا موازنہ بھی اہم اور دلچسپ ہے۔ عسکری صاحب نے اس موازنے پر بھی توجہ دی ہے۔ آئیے دیکھتے ہین اس سلسلے میں عسکری صاحب ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں۔ عسکری صاحب نے مذہبی روایتوں کی مماثلتوں اور جدید مغربی تہذیب کے تصورات سے ان کے اختلاف پر گفتگو کرتے ہوئے کئی نکات مرتب کیے ہیں۔
(1) حقیقت عظمیٰ مادی کائنات سے ماورا ہے، بلکہ ہر قسم کے تعینات سے آزاد ہے۔ علاوہ ازیں توحید کا تصور کسی نہ کسی پیرائے میں ان سب روایتوں میں موجود ہے۔
(2) مادی کائنات ایک معنی میں خدا کا غیر تو ضرور ہے، لیکن خدا اور کائنات یہ دو مساوی حقائق نہیں ہیں۔ کائنات بذاتہٖ وجود نہیں رکھتی، بلکہ اپنا وجود خدا سے مستعار لیتی ہے، اس لیے کائنات کو کسی طرح بھی خود مختار نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔
(3) کائنات کی ہیئت اور ترکیب کے متعلق ہر روایت نے اپنا ایک الگ تصور پیش کیا ہے۔ بہرحال مین عوالم کا تصور ہر جگہ ملتا ہے یعنی سب سے اوپر تو عالم روحانی ہے، پھر عالم مثال اور سب سے نیچے عالم مادی، خدا کی معرفت حاصل کرنے کے طریقے دو سمجھے گئے ہیں۔ ایک تو یہ خدا سے شروع کرکے نیچے عالم مادی کی طرف آئیں جو اسلامی طریقہ ہے یا ہندوؤں میں ویدانت کا طریقہ ہے۔ دوسرا یہ کہ نیچے کائنات سے شروع کرکے اوپر خدا کی طرف جائیں۔ جیسے کہ ہندوؤں کے یہاں سانکھیا درشن ہے یا ارسطو کا طریقہ ہے یا عیسائیوں کے یہاں ٹامس اکوائناس کا طریقہ ہے۔ اس دوسرے طریقے کے ضمن میں مغربی مفکرین کو غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اور وہ اس نقطہ نظر میں مادہ پرستی ڈھونڈلیتے ہیں جیسا کہ انہوں ے سانکھیا درشن یا یونان کے جوہری فلسفیوں کے سلسلے میں کیا ہے۔ لیکن جو آدمی نیچے کائنات سے شروع کرتا ہو تو لازمی نہیں کہ وہ ماورائی حقیقت عظمیٰ کا انکار بھی کرتا ہو۔
(4) جس چیز کو جدید مغربی فلسفے میں نیچر یا فطرت کہا جاتا ہے اس کا وجود پرانے تصورات میں نہیں ملتا۔ بلکہ رینے گینون نے یہاں تک کہا ہے کہ مشرقی زبانوں میں اس لفظ کا مترادف ہی نہیں ملتا۔ یونانی اور رومی فلسفے میں بھی یہ لفظ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ صرف دو معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ یا تو عالم طبعی کے معنی میں یا ماہیت کے معنی میں۔
(5) چوں کہ تمام روایتی تصورات کے نزدیک کائنات کے وجود تک کا انحصار خدا کے ارادے پر ہے، اس لیے کوئی روایتی نظریہ قوانین فطرت کو خود مختار حیثیت دے ہی نہیں سکتا۔ البتہ بعض یونانی فلسفیوں نے یہ کہا ہے کہ خدا نے کائنات کو تخلیق کرتے ہوئے اس کے اندر چند قوانین رکھ دیے ہیں جن کے مطابق کائنات عمل کرتی رہتی ہے۔ لیکن ان فلسفیوں نے بھی ایسے قوانین کو فاعل مطلق نہیں مانا جیسا کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مغربی فلسفے اور سائنس نے بنایا ہے۔ قوانین فطرت کو خود مختار سمجھنا نہ تو اسلام کی رو سے درست ہے اور نہ کسی دوسری روایت کی رو سے۔ یہ خالص مغربی تصور ہے، اور مغرب میں بھی اٹھارہویں صدی میں اُبھرا ہے اور اب بیسویں صدی کا مغربی سائنس قوانین فطرت کے تصور کو ہی درہم برہم کیے دے رہا ہے۔
(6) ان تمام روایتوں نے تسلیم کیا ہے کہ دراصل حقیقت تو ایک ہی ہے، یعنی خدا۔ البتہ انسان کو حقیقت کئی شکلوں میں نظر آتی ہے۔ چناں چہ ان حقیقتوں میں مراتب اور درجے ہیں، اور اوپر کا مرتبہ نیچے والے مرتبے کے برابر نہیں ہوسکتا یعنی عالم مادی کی وہ اہمیت نہیں ہوگی جو عالم روحانی کی ہے اور عالم روحانی کی وہ اہمیت نہیں ہوگی جو خدا کی ہے۔ مغربی افکار میں جو انتشار پھیلا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سترہویں صدی سے مغربی مفکروں نے یہ مراتب کا تصور چھوڑ دیا اور مختلف حقیقتوں کو آپس میں گڈمڈ کردیا۔
(7) فطرت کے علاوہ سرسید کا دوسرا نعرہ تھا عقل۔ یہ بھی انہوں نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مغربی فکر سے مستعار لیا۔ لیکن تمام روایتی تصورات میں عقل انسانی کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو جدید مغربی فکر نے دی ہے۔ روایتی تصورات میں انسانی عقل کا دائرہ نہایت محدود سمجھا گیا ہے۔ افلاطون تو خیر وجدان کا قائل تھا ہی، لیکن ارسطو بھی جسے عقل پرستی کا حامی سمجھا جاتا تھا اس بات کا قائل تھا کہ انفرادی انسانی عقل سے اوپر ایک اور عقل ہوتی ہے جس کی صفات ماورا ئے انسان ہیں اور حقیقت عظمیٰ کے ادراک میں یہی عقل کام دیتی ہے۔ چناں چہ اس اعلیٰ تر عقل کے لیے جو یونانی لفظ Nous ہے اس کے دوسرے معنی روح بھی ہیں۔
ان روایتی تصورات کے برعکس کائنات اور فطرت کا وہ تصور ہے جو سولہویں صدی سے مغرب میں ابھرنا شروع ہوا اور اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں اپنے عروج کو پہنچا۔ یہی تصور ہے جسے سرسید نے قبول کیا اور جسے تفسیر اور فقہ سے لے کر روزانہ زندگی تک میں رائج کرنا چاہا۔ اس جدید مغربی تصور کے اہم نکتے مندرجہ ذیل ہیں:
(1) اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں تو آکر بہت سے مغربی مفکرین نے خدا کے وجود ہی سے انکار کردیا۔ لیکن جب یہ انداز فکر سولہویں صدی میں شروع ہوا تو حقیقت عظمیٰ سے بے اعتنائی کا رویہ بھی شروع ہوگیا۔ بیکن جیسے مفکریہ تبلیغ کرتے تھے کہ ماورائی حقیقت بھی موجود سہی، لیکن انسان کا اصلی تعلق مادی کائنات سے ہے اور انسان کو اپنی زیادہ توجہ اسی پر صرف کرنی چاہیے۔
(2) انسان پرستی کی تحریک پہلے ہی شروع ہوچکی تھی جس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ ہر چیز پر انسان کے نقطہ نظر سے غور کرنا چاہیے۔ گویا حقیقت انسان اور اس کے معاملات کے اندر محصور ہوگئی۔ اس تحریک نے انسانی عقل کو اپنا اولین اور آخرین رہنما بنایا۔
(3) ہر قسم کی ذہنی تفتیش کا آغاز تب حقیقت کے آخری اور سب سے نیچے درجے یعنی مادی کائنات سے ہونے لگا، بلکہ مراتب حقیقت کا تصور ہی دھندلا پڑنے لگا۔
(4) ڈیکارٹ نے روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے بالکل الگ کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے مفکر روح کو بھول کر صرف مادے میں اُلجھ کر رہ گئے۔
(5) سولہویں صدی سے پہلے تمام علوم میں یہ طریقہ رائج تھا کہ کلی اصولوں کو سامنے رکھ کر ان سے انفرادی اشیا کے بارے میں نتائج اخذ کرتے تھے۔ لیکن بیکن نے اس طریقِ کار کو الٹ دیا۔ اس کے نزدیک حقائق کی دریافت کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بہت سی انفرادی اشیا پر تجربہ کرنے کے بعد ایک اصول اخذ کیا جائے۔ اسے تجرباتی طریقہ یا Empirical Method کہا جاتا ہے اور اسی کو سائنس کا طریقہ کار سمجھا جاتا ہے۔ اس اصول میں درحقیقت عقل انسانی کا انکار مضمر ہے کیوں کہ یہ طریقہ اختیار کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عقل انسانی اشیا کا مشاہدہ کیے بغیر کلی اصولوں تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات پر سرسید کی نظر نہیں پہنچی اور سائنس کی ترقیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ ہمیشہ عقل کا نام رٹتے رہے۔
(6) اب مادہ پرستی کا دور شروع ہوگیا اور ہابس کی قسم کے مفکر آئے جو مادی کائنات ہی کو واحد حقیقت سمجھنے لگے۔
(7) سترہویں صدی کے وسط ہی میں عالم مادی کے لیے ’’نیچر‘‘ کا لفظ استعمال ہونے لگا جس کا ترجمہ سرسید نے فطرت کے لفظ سے کیا۔ سترہویں صدی کے وسط سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک مغرب میں یہ تصور رائج رہا ہے کہ عالم مادی یا فطرت بہت سی اشیا کا مجموعہ ہے اور ان اجزا کا مجموعہ ایک کل بن جاتا ہے۔ یعنی فطرت ایک مشین ہے اور اشیا اس کے پزرے ہیں۔ یہ مشین چند مقررہ اصولوں کے مطابق چلتی ہے اور اس مشین کو چلانے کے لیے کسی خدا کی ضرورت نہیں بلکہ مادہ خود اپنے اندر سے حرکت پیدا کرتا ہے، اگر انسان بتدریج ان ’’قوانین فطرت کو سمجھ لے تو وہ فطرت کو اپنا غلام بناسکتا ہے۔ یہی تصور تھا جو سرسید کے ذہن پر چھا گیا تھا اور اسی کو وہ دانشمندی کی آخری منزل سمجھتے تھے۔
(8) سرسید اور حالی نے مغربی شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ورڈز ورتھ کا نام تو ضرور لیا ہے مگر انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ورڈز ورتھ اور دوسرے شعرا اٹھارہویں صدی کے تصور فطرت کے خلاف بغاوت کررہے تھے۔ یہ لوگ کہتے تھے کہ فطرت مشین نہیں بلکہ جاندار ہستی ہے، بلکہ انسان بھی بنیادی طور سے اسی حقیقت کا حصہ ہے جو فطرت میں جاری و ساری ہے۔ رومانی شاعر حقیقت عظمیٰ کا ذکر بڑے جوش و خروش سے کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت عظمیٰ وہ خدا نہیں جس کا تصور مذاہب نے پیش کیا ہے۔
رومانی شاعروں نے اور ان کی پیروی میں بعض مفکروں نے مادّے ہی کو خدا بنادیا ہے۔
(9) چاہے فطرت کا مشینی تصور ہو چاہے نامیاتی تصور، دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ فطرت سے اوپر کوئی اعلیٰ تر حقیقت موجود نہیں۔ یعنی رومانی شاعروں کی بغاوت کے بعد بھی مغربی فکر کا قبلہ مادّی ہی رہا۔
(10) یہ کوشش تو اٹھارہویں صدی ہی سے شروع ہوگئی تھی کہ اخلاقی اصول، مذہب کے بجائے فطرت سے اخذ کیے جائیں۔ اٹھارہویں صدی کے مفکر اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ فطرت معصوم ہے۔ اس لیے فطرت سے جو اخلاقی اصول اخذ کیے جائیں گے وہ بھی پاکیزہ ہوں گے۔ انیسویں صدی میں مِل جیسے مفکروں کو یہ احساس پیدا ہوا کہ فطرت میں بہت سی چیزیں نہایت خوفناک ہیں۔ مثلاً خونریزی، غارت گری وغیرہ۔ اس احساس نے پہلے تو فطرت کا خوف پیدا کیا، لیکن آہستہ آہستہ یہ خیال اُبھرنے لگا کہ اگر خونریزی فطرت کا حصہ ہے تو بھی وہ پاکیزہ چیز ہے۔ یہ خیال بیسویں صدی کے مغربی ادب میں شدت سے ترقی کرتا چلا گیا ہے جس کی بہترین مثال ڈی ایچ لارنس کی تصانیف ہیں۔
(11) بیسویں صدی کی سائنس نے فطرت کے مشینی تصور کو کاری ضرب لگائی، بلکہ بعض سائنس دانوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مستحکم اور مستقل قوانین فطرت کا کوئی وجود نہیں۔ یہ صورت حال سرسید کے خواب و خیال میں بھی نہ آئی تھی۔
(12) بیسویں صدی کے سائنس نے چاہے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے تصور فطرت کو درہم برہم کردیا ہو۔ لیکن مغرب کو ابھی تک کوئی دوسرا خدا نہیں مل سکا۔ آج کل کا کوئی سائنسدان یا فلسفی حتمی طور سے یہ نہیں بتا سکتا کہ فطرت کیا چیز ہے۔ لیکن آج کل کے مغربی ادب اور معاشرے میں فطرت کی پوجا ہمیشہ کی طرح جاری ہے، بلکہ شاید پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کی شہادت میں تازہ ترین فلموں، گانوں اور ناولوں وغیرہ پر ایک نظر ڈالنا کافی ہے۔