حکومت ماضی کی اسیر نہ بنے

488

پاکستانی وزیر خارجہ نے اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ امریکا سے تعلقات بتدریج بہتر ہورہے ہیں اور امریکی مشیر سلامتی جان بولٹن نے بھی یہی کچھ کہاکہ پاکستان میں نئی حکومت کا آغاز صفحہ بدل کر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے شہباز شریف کی گرفتاری اور دیگر انتقامی کارروائیوں کے تناظر میں کہاکہ حکومت ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھے۔ اگر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خاموش رہتے تو اس جملے کو بھی پاک امریکا تعلقات کے تناظر میں دیکھا جاتا۔ لیکن وزیر خارجہ نے کہاکہ شہباز شریف کی گرفتاری عدالتی عمل ہے حکومت کا اس معاملے میں عمل دخل نہیں۔ان بیانات میں دو باتیں اور دو موضوعات یکجا ہیں۔ امریکی بیان تو محض دو دن کا ہوتا بلکہ جس روز اچھے تعلقات کی بات کی جاتی ہے اسی روز یا اس کے اگلے روز کوئی اخبار، کوئی افسر یا وزیر سخت بیان دے ڈالتا ہے۔ لہٰذا امریکی حکام کے بیاناات کو تو الگ رکھنے کی ضرورت ہے لیکن مجموعی طور پر ایسا محسوس ہوہاہے کی تبدیلی کی دعویدار حکومت اب بھی ماضی کی اسیر ہے۔ نئی چیز یہ ہے کہ وزیراعظم نے سی پیک پر نظر ثانی کی بات کی ہے۔ وہ ہر منصوبے، ہر معاہدے پر نظر ثانی کی بات کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام منصوبے سابقہ حکومت کے ہیں لہٰذا ان پر نظر ثانی لازمی ہے۔حکومت خصوصاً وزیراعظم دو تین معاملات میں بری طرح ماضی میں الجھے پڑے ہیں۔ فی الحال بلوچستان کو اس کا حق دینے کے نام پر سی پیک منصوبوں کا جائزہ لینے کی بات کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سی پیک مبصوبوں کی شرائط کی تھیں۔ جن کو از سر نو زیر غور لانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ عمران خان سی پیک منصوبوں کا از سر نو جائزہ لینے سے قبل قوم کو سی پیک کی شرائط سے آگاہ کردیں۔ قوم کو پتا ہی نہیں کہ سی پیک کن شرائط پر کیا گیا ہے۔ پاکستان کو فائدہ کیا ہوگا اور کس کس قیمت پر یہ فوائد ملیں گے۔ ان فوائد کی قیمت کون دے گا۔ پاکستان کو سی پیک سے کیا مل رہا ہے اور چین کیا حاصل کررہاہے۔ ہر منصوبے میں جس میں دو ممالک شریک ہوں دونوں ہی کو کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر منصوبے کی شرائط میں ایسی کوئی بات لکھی ہے جو قومی مفادات کے منافی ہو تو ایسا منصوبہ قبول نہیں بلکہ رد کیا جانا چاہیے۔ اب جب کہ سی پیک کے فوائد یا ثمرات ملنے کا وقت آرہاہے نئی حکومت ان کا از سر نو جائزہ لینے کی بات کررہی ہے تو اس سے چینی شریک یا رقم لگانے والے ملک کے اعتماد کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ بار بار سی پیک کے حوالے سے از سر نو جائزے کی باتیں چین کے اعتماد کو متزلزل کرسکی ہیں۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سی پیک صرف میاں نواز شریف یا ان کی پارٹی کا منصوبہ نہیں تھا بلکہ اس میں پاک فوج شروع سے شامل رہی ہے اگر حکومت کو کسی خاص معاملے میں اعتراض ہے یا کوئی منصوبہ ایسا ہے جس میں بلوچستان کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اس کا کھل کر اظہار کرے لیکن ایسا نہیں کیا جارہاہے۔ بس مبہم سی بات کردی جاتی ہے۔ ویسے بھی حکومت کے مخالفین کہتے پھررہے ہیں کہ معاملہ سی پیک کا نہیں بلکہ ٹھیکوں کا ہے پہلے میاں نواز شریف کی حکومت اپنے چاہنے والوں کو ٹھیکے دیتی تھی تو کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ عمران خان سی پیک کے ٹھیکوں کا رخ اپنے چاہنے والوں یا انھیں جو چاہتے ہیں ان کی طرف کرنا چاہتے ہیں۔ یہ محض قیاس آرائی نہیں ہے بلکہ اتنے بڑے منصوبے کے ٹھیکوں کو جس کے حوالے کیا گیا اس کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوگا۔ بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو حقائق اس وقت پتا چلتے ہیں جب سروں پر سے سارا ہی پانی گزرچکا ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کوئی ایسا وعدہ نہیں کروں گا کہ جو پورا نہ کرسکوں لیکن ان سے کون یہ پوچھے گا کہ آپ نے جتنے وعدے کیے کام ان کے الٹ کیے ہیں۔ مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ تو سب کو یاد ہے اس سے تو خود بھی نہیں مکر سکتے مگر مدینہ جیسی ریاست بنانے کے لیے منکرین ختم نبوت اور جھوٹے نبی کے پیروکاروں سے تو مدد نہیں لی جاتی۔ سود ختم کرنے کے بجائے سود کی شرح میں اضافہ تو نہیں کیا جاتا سود پرقرضے تو نہیں لیے جاتے۔ عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال کر ٹیکسوں، گیس کی قیمتوں، بجلی کے نرخوں، ہر چیز اضافہ نہیں کیا جاتا۔ ہمارا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھیں۔ گزشتہ پچاس ساٹھ دن کے دوران کیے جانے والے حکومتی اعلانات کا از سر نو جائزہ لیں اور قوم سے معذرت کرکے کہیں کہ ہمیں اب سے 100 دن دیے جائیں۔ ابتدا میں تو ہم ذرا ابہام میں تھے۔ حکومتی زبان میں کنفیوژ تھے۔ پاکستانی قوم اتنی گئی گزری بھی نہیں وہ انہیں ضرور موقع دے گی۔ کم از کم حکومت کے وعدوں اور دعوں کے حوالے سے کوئی جائزہ تو بنے گا ابھی تو روزانہ ایک اعلان اگلے روز اس کی تردید اس کے بعد وہی کام جاری۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہاہے کہ حکومت اور خصوصاً وزیراعظم صاحب کے دل و دماغ پر ماضی چھایا ہوا ہے۔ وہ ریاست مدینہ بنانے کے بجائے جو خواب دیکھ رہے ہیں اس میں پورا شریف خاندان اڈیالہ جیل میں نظر آتا ہے۔جب ہی تو کہاہے کہ نیب پر اختیار ہوتا تو 50 مرغے اندر ہوے، گویا خواب میں مرغے جیل میں نظر آرہے ہیں۔ ممکن ہے عمران خان کو لانے والے یہ خواب بھی پورا کردیں۔ امریکیوں سے تعلقات اچھے ہوں یا برے ان کے ماضی اور حال میں کوئی فرق نہیں لیکن ملکی سطح پر حکومت کو فوری طور پر ماضی سے جان چھڑانا ہوگی۔ ورنہ مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا دعویٰ بھی ایک خواب ثابت ہوگا۔