دلیلِ بے مثل!

280

 

 

کالا باغ ڈیم کی مخالف پیپلز پارٹی کا ایک ایسا سیاسی ایجنڈا ہے جو اسے ایمان کی حد تک عزیز ہے۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والوں پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا ارادہ ظاہر کیا تو پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے چیف جسٹس پاکستان کو آرٹیکل 6 کے تحت کٹہرے میں کھڑا کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں سیاست دان قانون سے بالاتر مخلوق ہے، ان کے نزدیک ضابطہ اخلاق کے کوئی معنی نہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اخلاقیات کے بغیر جمہوریت، جمہوریت نہیں آمریت کی بدترین صورت ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما خورشید شاہ ایک بردبار اور متحمل مزاج سیاست دان سمجھے جاتے ہیں، شائستہ اور مہذب لہجہ ان کی پہچان بن چکا ہے مگر کالا باغ ڈیم کے معاملے میں دو بھی انتہا پسندی کے مظہر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا بہت اذیت رسا ہے کہ دریائے سندھ کے پانی پر ڈیم بنانے والوں کو ان کی لاش پر سے گزرنا ہونا ہوگا، آنے والی نسلوں کو ایک خوش حال اور شاداب ملک کا وارث بنانے کے لیے ایک لاش تو کیا۔ ہزاروں لاشوں پر سے بھی گزرنا پڑے تو سودا مہنگا نہیں ہے۔ جب تک ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے کہ ہم من حیث القوم جنگ جو ہیں سو، ہتھیاروں کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔ خورشید شاہ کا چیف جسٹس سے یہ استفسار کہ کیا وہ سیاست کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ان کے دل و دماغ میں سیاست دان بننے کی خواہش پنپ رہی ہے تو وہ بھی چودھری افتخار کی طرح سیاسی پارٹی بنالیں، گویا ملکی مفادات اور تحفظات کے معاملے میں مشورہ دنیا سیاست ہے ایسی سیاست جو سیاست دانوں کے حقوق کو مجروح بلکہ ان کی انا کو ٹھیس لگانے کے مترادف ہے۔ اس حقیقت سے انکار، انکار ابلیس کے سوا کچھ نہیں کہ پیپلز پارٹی نے ضلع تھرپارکر کو صومالیہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تو کیا ہے! پیپلز پارٹی پاکستان کو صومالیہ بنانے کے مشن پر کار بند ہے اور یہ کارِشر کس کے لیے کررہی ہے؟ وطن عزیز کے سیاست دان بھارت کی فوج کی بہت تعریف و تحسین کرتے ہیں ان کی رائے کے مطابق بھارت کی ترقی اور اقوام میں اس کی پزیرائی اور قدر و منزلت کا سب سے نمایاں سبب سیاست میں فوج کی عدم مداخلت ہے مگر وہ اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ بھارت میں ڈیم وغیرہ کی مخالفت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں سیاست دان فوج کے لیے ایوان اقتدار کا دروازہ کھولنا ملک سے غداری سمجھتے ہیں۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے پانی پر بھارتی پنجاب کا حق ہے انہوں نے بھارتی پنجاب کے کاشت کاروں کو یہ خوش خبری بھی سنائی ہے کہ عنقریب دریائے سندھ کا رُخ موڑ کر اس کا پانی انہیں دیا جائے گا تا کہ بھارتی پنجاب سرسبز اور شاداب سے شاداب تر ہو، کھیتوں کی شادابی کسانوں کو خوش حالی اور خوش بختی کا تحفہ دیتی ہے، یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ ہمارے سیاست دان ہماری زمینوں کو بنجر اور ہماری نسلوں کو پیاس اور بھوک کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ وطن عزیز میں پائے جانے والے سیاست کار اور دانش وری کے دعوے دار سیاسی مبصرین قوم کو یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ بھارت کے عوام پاکستان سے خوش گوار اور قابل رشک تعلقات کے متمنی ہیں۔ اس کی آشاکا راگ الاپنے والے اس صدی کے سب سے بڑے دروغ ہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ وہ نریندر مودی کی کامیابی کو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا ثمر قرار دیتے ہیں۔ یہ کیسی احمقانہ سوچ ہے کہ بھارت کے سیاست دان سیاسی ضرورت کے تحت پاکستان کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں، ان کی رائے کے مطابق نریندر مودی نے دریائے سندھ کا رُخ موڑنے کا بیان ووٹ بینک میں اضافے کے لیے دیا ہے۔ گویا پاکستان کی اصل دشمنی بھارت جنتا ہے، سیاست دان ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستان دشمنی پر مبنی بیانات دینے پر مجبور ہیں۔ سبحان اللہ۔ قربان جائیے اس دلیل بے مثل کے۔