معذوری اور قبضے‘ ذمے دار کون؟

245

 

 

آلودگی نیا نہیں، دیرینہ اور ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے، آلودگی کئی قسم کی ہیں۔ فضائی آلودگی دھوئیں اور گردوغبار سے پیدا ہوتی ہے، اس کے لیے کوڑا جلنا، دھول اڑنا اور بھٹوں، فیکٹریوں کے دھوئیں باعث بنتے ہیں، ایک اور آلودگی بھی ہے جو اب خطر ناک صورت اختیار کرگئی ہے وہ پینے کے پانی کی ہے، زیر زمین پانی بھی آلودہ ہوتا ہے، بلکہ اسے آلودہ کردیا گیا ہے، شہروں میں سیوریج کا پانی پینے کے پانی میں حل ہو جاتا ہے تو اب ایک نئی صورت سامنے آئی ہے جو فیکٹریوں کے زہریلے پانی سے ہو رہی ہے اور نئی نسل کی معذوری کا سبب بنتی ہے آلودہ زہریلے پانی کی وجہ سے معذور ہونا شروع ہوگئے ہیں اور نئی نسل زیادہ متاثر ہے، اس معذوری کی بنیادی وجہ وہ پانی ہے جو یہ پیتے ہیں اس مسئلہ کا تو فوری طور پر نوٹس لیا جانا ضروری ہے اور ان فیکٹریوں کو بھی فوراً بند کرنے کے ساتھ ساتھ مالکان کو سخت سزا دینا چاہیے بلکہ جو متاثرین ہیں ان کے علاج کے اخراجات بھی وصول کرنا لازم ہے، فیکٹریوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت ٹریٹمنٹ پلانٹ لگ جانے اور کام شروع کرنے کے بعد دی جائے۔ دوسرا بڑا مسئلہ قبضوں اور تجاوزات سے متعلق ہے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے جلدی شہرت حاصل کرنے کے لیے کسی ہوم ورک کے بجائے یہ کام شروع کر دیا قبضوں کے لیے عبدالعلیم خان، میاں محمود الرشید اور وہ تمام لوگ جو ’’رئیل اسٹیٹ بزنس‘‘ سے وابستہ ہیں سب جانتے ہیں یہ دھندہ کیا ہے قبضہ گروپ راتوں رات نہیں بنے، بلکہ ابتدا میں ان حضرات نے بھی ’’رئیل اسٹیٹ‘‘ کا کام شروع کیا جلد ہی اپنے شہر کے ترقیاتی ادارے ایل ڈی اے‘ سی ڈی اے‘ کے ڈی اے وغیرہ کے ’’ذہین‘‘ اہلکاروں نے ایسے حضرات سے سانجھے داری کر لی یہ مل کر سرکاری اراضی یا رہائشی اسکیموں کے پلاٹوں کے جعلی کاغذات (الاٹ منٹ228 ملکیت وغیرہ) بناتے اور پھر وہاں قبضہ کر لیا جاتا، اِس سلسلے میں مقامی پولیس کا تعاون بھی حاصل ہوتا تھا۔ یوں یہ قبضہ مستحکم ہو جاتا، اس کے بعد بات اور آگے بڑھی اور پھر ایسے مالکان کے پلاٹوں پر قبضہ شروع کر دیا گیا، جو زیادہ تر غیر حاضر تھے، اسی کے تحت وہ اراضی اور پلاٹ بھی زد میں آئے، جو سرکاری رہائشی اسکیم کے تحت قانونی طور پر ایکوائر کی گئیں اور استثنیٰ میں پلاٹ الاٹ ہوئے کہ پہلے قاعدے کے مطابق اراضی کے مالک کو ایک تہائی رقبے کے برابر پلاٹ دینا لازمی تھا۔ ایسے رقبے اور پلاٹوں کے مقدمات عدالتوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں اور اصل حق دار رقوم اور وقت خرچ کر کے بھی اپنی اراضی یا پلاٹ کا قبضہ حاصل نہیں کر پاتے، بات آگے بڑھی تو یہ باقاعدہ منافع بخش کاروبار بن گیا، پولیس آفیسر اور سیاست دان بھی ملوث ہوئے اور ان کا ’’اثر اور طاقت‘‘ کام آنے لگی، حق دار خوار ہونے لگے یہی وہ سلسلہ ہے جس کے مطابق ایل ڈی اے یا محکمہ ریونیو اور ریلوے وغیرہ کی زمینوں پر قبضہ کر کے باقاعدہ ہوٹل، پلازے، مارکیٹیں اور گھر بنا لیے گئے، اس سلسلے میں سرکاری اہلکار نوٹس بنوا کر جاری کراتے اور قبضہ گروپ عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیتے، اکثر کیسوں میں یہ لوگ یک طرفہ مقدمہ دائر کر کے عدالتوں سے حقوق ملکیت بھی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ یوں یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری تھا اور یہ سب گہری تحقیق کا متقاضی ہے، اس کی تفتیش کے لیے قوانین میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے اور بنیادی طور پر یہ نیب کے کیس ہیں کہ تفتیش ہو تو ایل ڈی اے کے اہلکار، افسر، سیاست دان، پولیس افسر اور ’’طاقت‘‘ استعمال کرنے والے ذمے دار پائے جائیں گے، بلاشبہ یہ اقدام اچھا اور عوام نے پسند بھی کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ملتان روڈ سے متصل یا جوہر ٹاؤن میں پلاٹ چھڑوائے گئے ہیں تو ملتان روڈ پر بھی بعض ’’بااثر طاقتور‘‘ حضرات کے ایسے کئی پلازے ہیں۔ دوسری طرف ملاحظہ کریں اور پڑتال کریں تو انار کلی میں کیے جانے والے آپریشن نے پول کھول دیا۔ فیصلہ ہے کہ علاقوں، بازاروں اور سڑکوں کو ان کی اصل حالت میں بحال کیا جائے، انار کلی آپریشن اس کی نفی ہے کہ یہاں تھڑے اور بورڈ اتارے گئے، سرکاری اراضی اور سڑک پر تعمیرات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ ایسے ہوتا تو لوگ سامنے آ کر احتجاج کرتے اور اہلکاروں کا پردہ چاک ہو جاتا جہاں تک رہائشی کالونیوں میں قبضوں یا ناجائز الاٹ منٹ کا تعلق ہے تو قبضہ گروپ ان میں اپنا کام دکھا اور منافع حاصل کر کے غائب ہو چکا اور جعلی دستاویزات پر پلاٹ ایک سے دوسرے ہاتھ بیچ دیے گئے اور اب ایسے پلاٹوں پر خریدار بھاری رقوم خرچ کر کے مکان بھی تعمیر کرا کے رہ رہے ہیں، ان پلاٹوں کو ناجائز الاٹ منٹ یا قبضہ قرار دے کر مسمار یا قبضہ کیا گیا تو نقصان عام شہری کا ہو گا، جو جائز جان کر رجسٹری کرا کے مکان تعمیر کر چکا ہے، اِس لیے یہ آپریشن جاری رکھنا ہے تو پھر ساتھ ہی ایسی گہری چھان بین بھی کرنا ہو گی جہاں تک تجاوزات یا ناجائز تعمیرات کا تعلق ہے کیا یہ عملے کی ملی بھگت اور رشوت ستانی کے بغیر ممکن ہے، اس حوالے سے کارپوریشن میں بڑے نامی گرامی لوگ گزرے ہیں جن کی اپنی کوٹھیاں اور مارکیٹیں ہیں ضروری ہے کہ اسے ناکامی سے بچانے کے لیے سرکاری اہلکاروں کا محاسبہ کیا جائے اور ان تمام خرابیوں کو پیش نظر رکھ کر دور بھی کیا جائے جس کی تفصیل بیان کی گئی ہے تاکہ اس آپریشن کا بھی وہی حشر نہ ہو جو آمروں کے دور میں بھی شروع ہو کر ناکام ہوئے۔