اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب کا ذریعہ اظہار قومی زبان اردو کو بنا کر پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ان کے اردو کے خطاب پر کئی حلقے بہت چراغ پا ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں اگر یہ خطاب انگریزی میں کیا جاتا تو اقوام عالم کو پاکستان کا موقف زیادہ بہتر سمجھ میں آسکتا تھا۔ ان کے خیال میں دنیا کو اپنا موقف سمجھانے کا یہ سنہری موقع پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔ اقوام متحدہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں پوری دنیا کے سربراہان یا ان کے نمائندے شرکت کرتے ہیں اور دنیا کے بیش تر ممالک اپنے اپنے ملک کی مروجہ زبان ہی میں اپنا موقف دنیا کے سامنے رکھ رہے ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ ایک ایسا ادارہ ہے جو دنیا کی ہر زبان کا مترجم رکھتا ہے جو باقی مندوبین تک کسی کے بھی خطاب کو دوسرے ملکوں کی مندوبین کی زبان میں پہنچا رہے ہوتے ہیں اور یوں ہر ملک دوسرے ملک کے موقف کو براہ راست سن اور سمجھ رہا ہوتا ہے۔ مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ اکثر بھارت کے سربراہان یا بھارت کی جانب سے نمائندگی کرنے والے اپنے ملک کی زبان ہندی میں جو قریب قریب اردو ہی ہے اور جس کو ہم پاکستانی بھی خوب اچھی طرح سمجھ رہے ہوتے ہیں، اپنا موقف بیان کرتے ہیں تو اس پر آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ بھارت اپنا موقف ہندی (اردو) میں کیوں بیان کرتا ہے بلکہ اس کے برعکس پاکستان میں ایسے ہی کتنے ہوتے ہیں جو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو بھارت تو اپنی بات ہندی میں کر رہا ہوتا ہے ایک ہم ہیں کہ ہر بات انگریزی میں بیان کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے اردو کو اظہار کا ذریعہ بنا کر کسی اور کا دل موہ لیا ہو یا نہ موہ لیا ہو، راقم کو انہوں نے ضرور اپنا گرویدہ بنا لیا ہے البتہ راقم کو یہ ضرور محسوس ہوا کہ شاید اردو میں خطاب کی پیشگی اطلاع اقوام متحدہ کے منتظمین کو نہیں دی گئی کیوں کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک مندوبین کے کانوں میں ہیڈ فون نظر نہیں آئے جن کی مدد سے ان تک شاہ محمود قریشی کی بات کا ترجمہ پہنچ سکتا تھا۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کو اطلاع نہ کرنے کی کوتاہی تو ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن ان کے اردو میں خطاب کو سراہنے کے بجائے اس کو تنقید کا نشانہ بنانا اچھا نہیں ہے۔ نقادوں نے تو اللہ کے ولیوں اور پیغمبروں تک کی باتوں اور پیغامات میں کیڑے نکالنے سے گریز نہیں کیا تو شاہ محمود قریشی کیا بیچتے ہیں۔ نقادوں کی تنقید ممکن ہے ان کی اپنی عقل و سمجھ کے اعتبار سے بہت وزنی ہو۔ لیکن کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ وزیر خارجہ پاکستان کا خطاب پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن نہیں تھا؟۔ انہوں نے جس طرح، کشمیر، فلسطین، ہندوستان کی پاکستان دشمنی اور کلبھوشن کے متعلق جو جو باتیں کیں کیا وہ ہر پاکستانی کے دل آواز نہیں تھی؟۔ شاہ صاحب نے پاکستان کی مخدوش صورت حال اور پاکستان کے خلاف بھارت کی دشمنی کو جس انداز میں کھول کھول کر بیان کیا وہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا اور اس سب سے بڑھ کرکارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اردو کو ذریعہ اظہار بنا کر ثابت کیا کہ پاکستان گونگا نہیں ہے جب کہ گزشتہ 70 برس سے دنیا کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی کوئی زبان ہی نہیں جب کہ ہمارا پڑوسی ملک بار بار دنیا پر ثابت کر رہا تھا کہ بھارت کے منہ میں بہت میٹھی زبان ہے اور وہ قطعاً بے زبان یا گونگا ملک نہیں۔ پاکستان نہ صرف زبان رکھتا ہے بلکہ وہ ایک ایسی زبان کا حامل ملک ہے جس کو دنیا کی ایک تہائی آبادی بولتی اور سمجھتی ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس کے بازاروں اور گلیوں میں اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے نہ ہوں۔ اردو کیسی زبان ہے اور امریکا کے اعلیٰ عہدے والے اور حساس اداروں سے تعلق رکھنے والے اس کی اہمیت اور ضرورت کو کس حد تک محسوس کرتے ہیں اس کی ایک چھوٹی سی جھلک میں تمام پاکستانیوں کے سامنے بالعموم اور شاہ محمود قریشی کے اردو خطاب پر تنقید کرنے والوں کے لیے بالخصوص رکھنا چاہتا ہوں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ ہماری قومی زبان کہاں کہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ امریکا کے دفتر خارجہ کی ایک اہم رکن ’’لینا وائٹ‘‘ سے اقوام متحدہ میں شاہ محمود قریشی کی تقریر کی روشنی میں ایک انٹر ویو لیا گیا۔ یہ جان کر نہ صرف راقم خوش ہوا بلکہ حیران بھی ہوا کہ ’’لینا وائٹ‘‘ نے سارے کے سارے سوالات اردو میں سنے اور پھر مناسب لہجے اور نہایت ہی سلیس اردو میں ان سب سوالوں کا جواب بھی دیا۔ جس وقت سوال کرنے والے نے لینا وائٹ کا تعارف کراتے ہوئے یہ کہا کہ شاہ محمود قریشی کے خطاب کے حوالے سے ہم نے امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان اور اہم رکن سے شاہ صاحب کی تقریر کے حوالے سے کچھ سوالات کیے تو ان کا جواب کیا تھا۔ مجھے گمان یہی تھا کہ لینا وائٹ کے جوابات انگریزی ہی میں ہوں گے جن کو ترجمہ کرکے سنایا جائے گا لیکن جب میں نے انٹرویو کرنے والے کو اردو میں سوال کرتے سنا اور پھر لینا وائٹ کے جوابات بھی اردو میں سنے تو بہت خوشی ہوئی اور میں نے جانا کہ ہماری قومی زبان کی اہمیت ہمارے اپنے نزدیک ’’ریختہ‘‘ ہی سہی لیکن دنیا اس کی ضرورت اور اہمیت سے خوب واقف ہے۔ میں لیا گیا انٹرویو پورا کا پورا سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں تاکہ یہ بات سمجھ میں آسکے کہ امریکا کی دوستی کا معیار کیا ہے اور امریکا اپنے دوستوں یعنی اتحادیوں سے کس قسم کی دوستی اور اتحاد چاہتا ہے۔ سوال:۔ جو کچھ آج پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کیا آپ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس اس کی تفصیل موجود ہے اور کیا آپ ان تمام باتوں سے آگاہ ہیں۔
جواب:۔ میرے پاس فی الحال اس کی ساری تفصیلات تو موجود نہیں لیکن پاکستان اور امریکا کے پاس دوطرفہ تعلقات موجود ہیں اور ہم آپس میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کرتے رہتے ہیں۔ سوال:۔ موجودہ صورت حال سے لگتا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہت کشیدہ ہیں۔ پاکستان تو امریکا کو اپنا پرانا دوست سمجھتا ہے لیکن امریکا کی جانب سے وہ رویہ نظر نہیں آرہا جو ایک پرانے دوست کا ہونا چاہیے۔ اس بات کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں۔ جواب:۔ میں دوطرفہ تعلقات کے بارے میں اس وقت تفصیل سے بات نہیں کر سکتی ہاں یہ ضرور کہہ سکتی ہوں کہ ہمارے تعلقات پاکستان سے بہت مضبوط اور دیرینہ ہیں۔ سوال:۔ امداد کے متعلق امریکا یہ کہتا ہے کہ ہم امداد ان کو دینگے جو ہمارے دوست ہوں گے، ہماری بات ماننے والے ہوں گے۔ آپ جانتی ہیں کہ پاکستان اس وقت سخت معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گی۔ جواب:۔ پاکستان ہمارا دوست ہے۔ رہی بات امداد کی تو ہم انسانی ہمدردی کی مد میں تو امداد دیتے ہیں اور اس کو بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ امداد خواہ کسی مد میں دی جائے وہ ایک طرح ’’ڈیل‘‘ ہوتی ہے۔ جو ہماری دوستی کا پاس کرتے ہیں ہم بھی ان کی دوستی کا احترام کرتے ہیں۔ سوال:۔ پاکستان کو آج کل کہاں رکھا جارہا ہے؟، اچھے دوستوں میں یا معمولی دوستوں میں؟۔ جواب:۔ پاکستان کی دوستی ہمارے لیے بہت اہم ہے لیکن ہماری ترجیہات میں بھی کچھ چیزیں شامل ہیں جن میں جوہری عدم پھیلاؤ، انسانی امداد اورامن و سلامتی بہت اہم ہیں۔ سوال:۔ پاکستان جس خطے میں ہے، جیسے ایران، اس کے بارے میں بھی صدر ٹرمپ نے بہت سخت رویہ اختیا کیا ہے تو کیا اس کا اثر پاکستان پر نہیں پڑے گا؟۔ آپ کس طرح دیکھتی ہیں جو ایران کے ساتھ دھمکی والا رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ جواب:۔ ایران کا خود کا رویہ بھی اچھا نہیں ہے۔ وہ دہشت گردوں کی نہ صرف حمایت کر رہا ہے بلکہ ان کی مالی معاونت بھی کر رہا ہے۔ پابندیوں سے ایرانی عوام تنگ دست ہو سکتے ہیں لیکن دہشت گردوں کی امداد بھی ضرور بند ہو جائے گی جس سے امن بحال کرنے اور دہشت گردی کو روکنے میں مدد ملے گی۔ سوال :۔ امریکا کے وہ دوست جو ایران کے بھی دوست ہیں ان کا کیا ہوگا۔ جواب:۔ لینا وائٹ نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں کے حق میں ہیں۔ ہمارا ان سے اتحاد رہے گا اور ہماری حتی الامکان کوشش ہوگی کہ وہ ہمارے اتحادی رہیں۔ دوطرفہ تعلقات کو برقرار رکھا جاسکتا ہے اور ہم ان کے ساتھ بہر لحاظ چل سکتے ہیں۔ اس انٹرویو کو محض اس لیے جزو کالم کیا گیا ہے کہ نقادوں کے علم یہ بات اچھی طرح آجائے کہ اردو کوئی ایسی زبان نہیں جس کی اہمیت کو دنیا نظر انداز کر سکے اور ہمارے جذبات کو نہ سمجھ سکے۔ جب امریکا کے حساس ادارے ہماری زبان میں بیان ہر مطلب کو خوب اچھی طرح سمجھ اور بول سکتے ہیں تو دنیا کے ہر اہم ملک کے حساس اور اہم محکمے میں ہماری بات کو اسی طرح بولا اور سمجھا جاتا ہوگا۔ یاد رہے کہ مذکورہ انٹرویو اردو ہی میں تھا اور امریکا کی وزارت خارجہ کی زبانی اتنی شستہ اور سلیس اردو میں گفتگو سنی تو بہت ہی خوشی ہوئی۔