وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) حکام نے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی میں سائبر کرائم سے معتلق کیسز میں غیر معمولی اضافے کا انکشاف کردیا۔
سینیٹر عثمان کاکٹر کی صدارت میں سینیٹ کی کم ترقی یافتہ علاقہ جات سے متعلق فنکشنل کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیکرٹری داخلہ اور ایف آئی اے حکام شریک ہوئے۔
ایف آئی اے حکام ادارے کی کارکردگی سے متعلق بتایا کہ سائبر کرائم سے متعلق شکایات درج کنندہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ 2013 سے 2016 تک کیسز کی رجسٹریشن میں اضافہ ہوا اور 2016 سے 2017 تک کیسز کی رجسٹریشن میں کمی آنا شروع ہوئی ہے۔
حکام نے اقرار کیا کہ ایف آئی اے میں اسٹاف کی کمی ہے اور عملے پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔
ایف آئی اے کی کارکردگی کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہیومن اسمگلرز کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور 2016 میں اسمگلرز کے 65 سہولت کار گرفتار کیا گیا۔
علاوہ ازیں نے کمیٹی کو بتایا کہ آئی بی ایم ایس کے استعمال سے ایف آئی اے کا ڈیٹا ہیک نہیں ہو سکتا۔
ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ بارڈر پر ہر جگہ پر ایف آئی اے کے چیک پوسٹ نہیں ہیں۔
اس ضمن میں سینیٹر گیانچند نے سوال اٹھایا کہ کچھ لوگوں کے اکاونٹس میں پیسے آ رہے ہیں، بتایا جائے کہ رقم اکاونٹ میں بھیجنے والے کون ہیں؟
جس پر ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ مجموعی طور پر 35 ارب کے جعلی اکاونٹس پکڑے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اکاونٹس کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے جو جعلی اکاونٹس کے معاملے کو دیکھ رہی ہے۔
اس حوالے سے ایف آئی اے حکام نے اقرار کیا کہ رقم کی اکاونٹ میں منتقلی کا معاملہ جے آئی ٹی کے علم میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 25 ہزار تنخواہ وصول کرنے والے شخص کے اکاؤنٹ میں 5 کروڑ آئے تھے تو بینک کے ہیڈ کو بھی ایف آئی اے نے حراست میں لے لیا۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ بینک عملے نے انکشاف کیا کہ اوپر سے ہدایات آنے پر جعلی اکاونٹ کھولے گئے۔
چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ اگر جعلی اکاؤنٹس میں بینک عملہ ملوث ہے تو بینک تاحال کیوں بند نہیں کیے گئے؟
کمیٹی نے ہدایت کی کہ جعلی اکاونٹس کے معاملے میں ملوث بینک کو بند کیا جائے۔
کمیٹی میں شریک ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے کہاکہ جعلی اکاونٹس کے معاملے پر ان کیمرا اجلاس بلایا جائے، یہ تمام سطحی باتیں ہیں۔
کمیٹی نے وزیر مملکت برائے داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کی عدم شرکت پر ناراضگی کا اظہار کیا۔
سینیٹر فدا محمد نے اعتراض اٹھایا کہ اجلاس میں وزیر داخلہ موجود ہیں نہ ہی ڈی جی ایف آئی اے، اجلاس میں صرف تین حکام شریک ہیں۔
اس پر ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے کیس کے باعث سیکرٹری داخلہ عدالت اور ڈی جی ایف آئی اے اس وقت سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔