ٹرمپ کا طنز اور مسلمان حکمران

291

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خاصی بد زبان اور منہ پھٹ شخصیت واقع ہوئے ہیں۔ روس سے چین، شمالی کوریا، ایران اور پاکستان تک کوئی بھی اس بد زبانی سے بچ نہیں سکا۔ اب امریکا کا روایتی دوست اور کاروباری شراکت دار سعودی عرب بھی اس زبان درازی سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ٹرمپ نے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران سعودی حکمرانوں کے بارے میں نہایت طنزیہ لہجہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے سعودی فرماں رواشاہ عبداللہ کے ساتھ ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی فوج کی مدد کے بغیر ایک ہفتہ بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے شاہ عبداللہ کو بتایا تھا کہ وہ ہمیں سعودی عرب کی حفاظت کا معاوضہ دیں اور معاوضے کے بغیر زیادہ دیر تک خدمات انجام نہیں دی جا سکتیں۔ سعودی عرب نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ امریکا نے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا اگر امریکا نے اسلحہ دیا تو ہم نے اس کی رقم دی ہے۔ ایران نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سعودی حکمرانوں کی طرف دوستی کا سکہ اُچھال دیا۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ٹرمپ سعودی حکمرانوں کی مسلسل تذلیل کرتے جارہے ہیں انہیں اب سامراجی مقاصد کے بجائے علاقائی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔
یوں تو ڈونلڈ ٹرمپ زمانے بھر سے ناراض رہتے ہیں مگر سعودی عرب سے ان کی تازہ ناراضی کی وجہ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ہے۔ سعودی عرب دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک اور اوپیک کا رکن ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ٹرمپ نے تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک پر دنیا کو لوٹنے کا الزام عاید کیا تھا۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا مرکزی خیال ہی ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ تھا اور وہ جابجا اس بات کا برملا اظہار کرتے رہے اور کہیں ان کے باتوں سے یہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا۔ انہوں نے تارکین وطن اور دوسری قوموں اور ملکوں کے حوالے سے بھی کھلا موقف اپنائے رکھا۔ وہ یہ کہتے رہے کہ ہم اپنے عوام کے ٹیکسوں سے دوسرے ملکوں اور قوموں کو نہیں پال سکتے۔ پاکستان بھی ان کے طنز و تشنیع کا بھرپور نشانہ رہا ہے۔ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر پیسے کھانے اور نوازنے اور احسانات کی بات کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں ایک غیر محسوس اُتار چڑھاؤ خلیج کی پہلی جنگ سے ہی جاری ہے۔ مدت دراز تک امریکا سعودی عرب کے شاہی خاندان کی حمایت کرتا ہے مگر حمایت وتعلق کی اس داستان میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل سعودی حکمران شاہ فیصل کی پراسرار شہادت کا واقعہ بھی موجود ہے۔ شاہ فیصل اسلامی کانفرنس کے بانیوں اور اس تصور کے منصوبہ سازوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا فنانسر بھی سمجھا جاتا تھا۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے ساتھ بھی انہیں بیٹھنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا تھا اور وہ تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر بھی یقین رکھتے تھے۔ اسرائیل کے حوالے سے بھی ان کی سوچ عام مسلمان کی سوچ سے قریب بلکہ کہیں آگے تھی۔ شاہ فیصل عالمی اسکیم میں ’’مس فٹ‘‘ سمجھے جا رہے تھے اور انہیں ایک حکمت عملی کے تحت مہارت سے منظر سے ہٹایا گیا۔ اس واقعے کے بعد بھی سعودی حکمرانوں سے امریکا کی گاڑھی چھنتی رہی۔ اس میں کاروباری مفادات کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے تحفظ کا نکتہ بھی شامل تھا۔ امریکا کے ساتھ سعودی حکمرانوں کے تعلق کی بنیاد رضا کارانہ اور جذبہ خدمت سے مغلوب عمل، انسانی ہمدردی یا دوستی نہیں خالص کاروباری تھی اور اس سے بھی بڑھ کر مشرق وسطیٰ میں طاقت کا ایسا توازن برقرار رکھنا تھا جس سے اسرائیل کے وجود کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔ سعودی عرب نے اپنے زیر اثر ملکوں اور خود اپنے عوام کے جذبات کے پیمانے کو اسرائیل کے خلاف چھلکنے سے بچائے رکھا۔ امریکا کو کاروباری سہولتیں دیں اور اس کے بدلے امریکا نے سعودی عرب پر نوازشات کی بارش کی۔ امریکی بینکوں اور مارکیٹوں کی رونقیں عرب شاہزاداوں اور بااثر کاروباری طبقوں کے دم قدم سے آج بھی جاری ہیں۔ یہ وہ کہانی جو پاکستانی کے ساتھ دہرائی جاتی رہی۔ پاکستان کے لیے جس امداد کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے وہ دیدہ ونادیدہ خدمات کا صلہ رہا ہے۔ امریکی صدر مسلمان ملکوں اور حکمرانوں کے بارے میں یہ لب ولہجہ لمحہ فکر ہے۔ اب مسلمان حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کب تک اپنے اقتدار اور مفادات کے لیے امریکا کے دست نگر رہیں گے۔ مسلمان حکمرانوں نے اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم کو مضبوط کیا ہوتا تو آج انہیں اس ذلت آمیز اندازِ تخاطب سے واسطہ نہ پڑتا۔ یہ صرف سعودی حکمرانوں کی نہیں امریکی مفادات کے لیے اپنا قومی وجود اور عزت اور انا داؤ پر لگانے والے مسلمان حکمرانوں کے لیے سوچنے کا مقام بھی ہے۔ مقام شکر ہے کہ مسلمان حکمران طبقات میں اب ذلت کا احساس پیدا ہونے لگا ہے مگر احساس ہی کافی نہیں بلکہ اس احساس کو عملی صورت دینا لازمی ہے۔ ایسے وفاقی کابینہ نے اربوں ڈالر کے تجارتی معاہدات کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی طرف سے گوادر میں ایک جدید آئل ریفائنری کی منظوری دے دی۔ حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس آئل ریفائنری کی استعداد اور سرمایہ کاری کا بعد میں جائزہ لیا جائے گا۔ موجودہ حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب سی پیک کا تیسرا شراکت دار بننے کا خواہش مند ہے۔ چین کی طرف سے بھی دوٹوک انداز میں وضاحت کی گئی تھی کہ سی پیک کا پاکستانی حصہ پاکستان کی ذمے داری ہے وہ جسے چاہیں اس میں شریک کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں نئے انداز کی گرم جوشی سے اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ ایران سعودی عرب کے ساتھ اپنی روایتی علاقائی اور سیاسی اختلافات کے باعث اس نئی صورت حال سے کبیدہ خاطر ہوگا۔ یہ تاثر اس وقت زائل ہو گیا جب پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک گیم چینجر ہے اور ایران کو اس میں سعودی عرب کی شمولیت اور سرمایہ کاری پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ اس عمل کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا جان چکی ہے کہ ترقی کا راستہ جنگ نہیں باہمی روابط ہیں۔ ایرانی سفیر کی طرف سے پاک سعودی تعلقات اور سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت کا کھلے دل سے خیرمقدم حددرجہ خوش آئند ہے۔ اس کا اثر صرف پاک ایران تعلقات پر ہی نہیں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اور خلیج بالخصوص یمن اور شام کی خانگی جنگوں اور فلسطین کے حالات پر بھی پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ جس طرح مسلمان ملکوں کو ایک ایک کرکے بے عزت اور تنہا کررہے ہیں وہ مسلمانوں کے اندر ایک احساسِ زیاں پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان اگر سعودی عرب اور ایران کو قریب لانے میں کامیاب ہوتا ہے اور دونوں شام، لبنان، یمن اور عراق میں پراکسی لڑائیاں ختم کرنے پر مائل ہوتے ہیں تو یہ نئی صبح کا عنوان بن سکتا ہے اور شاید اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کے سوا اب مسلمان دنیا کے پاس کوئی راہ باقی نہیں۔