جاسوسوں پر مہربانی کیوں؟

281

حکومت نے پاکستان میں جاسوسی میں ملوث امریکی این جی اوز سمیت 18 کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ 72 ایجنسیوں پر پابندی برقرار رکھی ہے۔ یہ تنظیمیں دشمن ایجنسیوں کے لیے کام کرتی تھیں۔ وزارت داخلہ نے بیان جاری کیا ہے کہ ان تنظیموں کا مشن لوگوں کو بغاوت پر اکسانا، مذہبی منافرت پھیلانا اور پاکستان کا تشخص خراب کرنا تھا۔ جن ممالک کا نام اس فہرست میں ہے وہ تو پاکستان کی ہر حکومت کے دوستوں کی فہرست میں سر فہرست ہی رہے ہیں۔ یعنی امریکا، برطانیہ، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، اٹلی وغیرہ یہ تو اچھے اور مہذب ممالک کہلائے جاتے ہیں پھر ان کی این جی اوز پاکستان میں جاسوسی کیوں کررہی تھیں۔ وزارت داخلہ نے یہ کوئی نیا کام نہیں کیا ہے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی یہ ایکشن لیا تھا اور پاکستان کے مفاد کا تقاضا ہے کہ ایسی این جی اوز کو کام نہ کرنے دیا جائے۔ لیکن جب کسی کے جاسوسی میں ملوث ہونے کا ثبوت مل جائے تو محض ملک بدر کرنا سمجھ سے بالا ہے۔ ایسی این جی اوز پر پابندی لگا کر انہیں چلانے والوں کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا۔ وزارت داخلہ نے ان پر جو الزام لگایا ہے اس کے مطابق یہ لوگوں کو بالخصوص بلوچستان میں بغاوت پر اکساتی تھیں اور پاکستان کا تشخص خراب کرتی تھیں اس سے زیادہ سنگین بات اور کیا ہوگی۔ لیکن بغاوت اور پاکستان کا تشخص خراب کرنے کے مجرموں کے ساتھ اس قدر رعایت؟؟ باعزت طور پر ملک سے جانے کی اجازت۔ اس سے سوالات تو اٹھیں گے۔ یہاں کسی نامعلوم معاملے میں الخدمت کے اسسٹنٹ سیکریٹری جماعت اسلامی کے رہنما اعجاز اللہ خان کو ان کے گھر سے اغوا کرلیا گیا۔ ساری سرکاری مشینری آئی تھی گویا وزارت داخلہ کی ناک کے نیچے اس کی اجازت سے ہی ساری کارروائی ہورہی تھی۔ تو یہ تضاد کیوں ہے۔ پاکستان میں خدمت خلق کرنے والے کو گھر میں گھس کر غیر قانونی طور پر اغوا کرلیا جائے اور پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے کا الزام ثابت ہوجانے پر این جی اوز کو ملک چھوڑنے کا حکم، اس پر تو مذکورہ ممالک کے سفیروں کو طلب کیا جانا چاہیے تھا کہ ان لوگوں کو ہم گرفتار کررہے ہیں اور جب تک آپ کا ملک ان کے بارے میں کارروائی سے آگاہ نہیں کرے گا ہم انہیں حراست میں رکھیں گے۔ لیکن اتنی جرأت کہاں؟ ساری جرأت اور طاقت تو اپنے لوگوں کو پکڑنے اور ان کے خلاف کارروائیوں کے لیے ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کسی روز شکیل آفریدی، کلبھوشن یادو اور دوسرے لوگوں کو بھی ملک سے نہ نکال دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ یہ لوگ بغاوت پر اکساتے تھے، جاسوسی میں ملوث تھے اور پاکستان کا تشخص خراب کررہے تھے۔ ویسے پاکستان کا تشخص خراب کرنے میں این جی اوز سے زیادہ خود ہمارے حکمران اور طاقت کے مراکز کافی مہارت رکھتے ہیں۔ جس محنت سے یہ سب ملکر ملک کا تشخص برباد کرتے ہیں اس کی بے تحاشا مثالیں ہیں۔ تازہ ترین کویتی وفد کے سامان کی چوری ہے۔