حالات کی بہتری کی امید پر پھر قرض

358

وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ملک چلانے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا۔ عمران خان سے اسی انداز کی توقع تھی کہ جو کرنا ہے کھل کر کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا۔ بس عمران خان کے کل اور آج میں اتنا سا فرق ہے کہ پہلے وہ حکومت کے ان ہی اعلانات کو دھوکا کہتے تھے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کو غلامی کہتے تھے، نواز شریف یا شوکت عزیز جو کچھ کہتے تھے اب انہوں نے بھی وہی کہنا شروع کردیا ہے، اب کون ہے جو ان کے بارے میں وہی الفاظ ادا کرے گا جو عمران خان دوسروں کے بارے میں کہتے تھے۔ چونکہ نواز شریف، زرداری اور پرویز مشرف یہی کچھ کہتے اور کرتے تھے اس لیے وہ عمران خان کو جھوٹایا نا اہل نہیں کہہ سکتے۔ البتہ یہ بات امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہہ دی کہ حکومت سابق حکمرانوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ، ٹیکسوں کی بھرمار اور اب آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان۔ عمران خان نے کہا ہے کہ حالات بہتر ہونے پر قرضوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ عمران خان اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ انہوں نے اس تنگ وقت کے بارے میں پیریڈ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ فی الوقت اس پیریڈ سے گزرنا ہوگا۔ دوسرے کہا کرتے تھے کہ کڑوی گولی نگلنا پڑے گی۔ ممکن ہے یہ الفاظ وزیر خزانہ کے لیے رکھ چھوڑے ہوں جو فی الوقت تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے تردید کررہے ہیں البتہ وزیراعظم نے اگلے دن اجلاس کرکے آئی ایم ایف سے فوری رابطے کی منظوری بھی دیدی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جن حالات کے بہتر ہونے کا ذکر کیا ہے یہ وہی حالات ہیں جن کے بہتر ہونے کا ذکر بے نظیر، نواز شریف، شوکت عزیز، جمالی، گیلانی، مشرف، زرداری وغیرہ سب کرتے تھے۔ یہ حالات کسی کے دور میں بہتر نہیں ہوئے۔ بے نظیر دو مرتبہ اور نواز شریف تین مرتبہ یہی بات کہہ چکے لیکن حالات ہیں کہ بہتر ہی نہیں ہوتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دوسرے آپشنز پر بھی غور کررہے ہیں اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانا حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔ تو پھر گیس نرخوں میں اضافہ، ٹیکسوں کی بھرمار، بجلی، پیٹرول پر اضافہ اور اب آئی ایم ایف جانا کون سی ترجیح ہیں۔ شاید وزیراعظم پورا جملہ نہ کہہ سکے۔۔۔ کہ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے بعد لوٹی ہوئی دولت واپس لانا پہلی ترجیح ہے۔ اب جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور بعینہ اس طریقے پر کیا ہے جس کی نشاندہی کی جاچکی ہے کہ پہلے منع کریں گے پھر غور کریں گے پھر ضرورت قرار دیں گے اور پھر مجبوری قرار دے کر آئی ایم ایف کے پاس چلے جائیں گے۔ لیکن عمران خان کی رفتار سب کے مقابلے میں بہت تیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب حکومت کو کیا کرنا چاہیے حکومت سے زیادہ اپوزیشن کو کرنا چاہیے کہ اگر قرضے لیے جارہے ہیں تو اسے کڑوی گولی سمجھ کر حلق سے اتارلیں لیکن حکومت بھی ایک کڑوی گولی حلق سے اتارے۔ کوئی قرضہ بھی لیا جائے اس کی واپسی کی مدت پانچ سال سے کم ہونی چاہیے جو قرضہ جو حکومت لے وہ اپنے دور میں ہی اسے اتارنے کی پابند ہو۔ ہمارے حکمران 20 سالہ مدت کا قرضہ لیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ 20 سال بعد تو ہماری پوری ٹیم میں سے کوئی حکومت کا حصہ نہیں ہوگا۔ تو کون پوچھے گا؟ پھر بڑے آرام سے وہی جملہ کہا جائے گا جو وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سابق حکمران عوام کو کنگال کرگئے ہیں۔ بھٹو صاحب بھی یہی شکوہ کرتے تھے کہ میں آیا تو خزانہ خالی تھا۔ بلکہ جو آیا یہی کہتا تھا کہ ہمیں تو سارے قرضے اور مسائل ورثے میں ملے ہیں لہٰذا اپوزیشن سڑکوں پر جانے کے بجائے اسمبلی جاکر حکومت کو مجبور کرے کہ قرضوں کی شرائط میں یہ لکھوایا جائے کہ حکومت کے خاتمے کی مدت سے قبل قرضوں کا جائزہ ہوگا اور یہ بتایا جائے گا کہ کتنا قرض چھوڑ کر جارہے ہیں اور کیوں ادا نہیں ہوسکا۔ ورنہ حکومت کی مدت سے زیادہ کے قرض پر پابندی کا قانون منظور کرایا جائے۔ وزیراعظم سیاست کے ساتھ ساتھ عوام کو تسلی دینے کے حوالے سے بھی غیر تجربہ کار ہیں۔ کہتے ہیں کہ سبسڈی نہیں دے سکتے ہر ادارہ خسارے میں ہے، قیمتیں ہی بڑھیں گی۔ پھر آخری جملہ کہہ دیا کہ قوم بے فکر رہے، تمام وعدے پورے کروں گا، یہ جملہ کہنا تو بڑا آسان ہے لیکن ایک مہینے میں لوگوں کا بجٹ دوگنا ہوگیا آمدنی وہیں ہے تو قوم بے فکر کیسے رہے۔ بے فکر تو اس ملک میں صرف حکمران طبقہ رہتا ہے اس پر بجٹ، آئی ایم ایف، قرضوں، مہنگائی وغیرہ کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا۔ بہر حال آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کرتے وقت عمران خان کو یہ تو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے کنٹینر پر کھڑے ہوکر کچھ بھی کہا جاسکتا ہے لیکن حکومت چلانا اور ہی کوئی کام ہے۔