چیف جسٹس صاحب، اعجاز اللہ کہاں ہے؟

371

 

پاکستانی سیاستدان، فوج، حکمران، میڈیا سب کہتے ہیں کہ بھارت کو یہ کیوں سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنے ہی ملک کے لوگوں پر مظالم کرکے ان کی زبان سے جے ہند کا نعرہ سننے کی خواہش احمقانہ ہے۔ اور بات بھی درست ہے، کشمیر میں بھارتی مظالم کو 70 برس ہوگئے اس کی فوج کی تعداد بڑھتے بڑھتے 10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ پہلے تو کسی کو پتا نہیں چلتا تھا کہ فوجی کب کس کے گھر میں گھسے اور کس کو کہاں بند کردیا۔ ٹارچر سیل کی رپورٹ تو پہلے دیر میں آتی تھی اب تو سوشل میڈیا کے ذریعے انٹرنیٹ سے بھارتی دہشت گردی براہ راست دکھادی جاتی ہے۔ چین میں مسلمانوں کے خلاف حکومت کی دہشت گردی سب کو نظر آرہی ہے لوگوں کو لاپتا کیا جارہا ہے اس پر امریکا اور اقوام متحدہ کو بھی تھوڑی سی تشویش ہوئی ہے لیکن ساری دنیا کی مسلمہ عادت اور طریقہ یہی ہے کہ کہیں سماجی کارکن یا انسانی حقوق کا کوئی علمبردار لاپتا ہوجائے یا صحافی غائب ہوجائے تو ساری دنیا سر پر اٹھالی جاتی ہے۔ ایران میں شیریں عبادی حکومت کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث تھی اس کے خلاف کارروائی پر ساری دنیا اچھل پڑی۔ پاکستان میں ڈان لیکس کے ذمے دار سرل المیڈا کے خلاف مقدمہ درج ہونے پر عالمی سطح پر احتجاج ہوگیا۔ دنیا بھر کے ممالک میں یہی ہوتا ہے، امریکا ساری دنیا میں بمباری کرکے سب کو اپنا دشمن بنارہا ہے، اور دنیا کہتی ہے کہ امریکا کو یہ سادہ سی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن ہمارا سوال ہے کہ پاکستانی حکومت، فوج، خفیہ اداروں، رینجرز، پولیس کسی ادارے کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اپنے لوگوں کو مظالم کا نشانہ بنا کر وہ اپنے دوست پیدا کررہے ہیں یا دشمن۔ اگر بھارت کشمیریوں پر فوج کشی کرکے ان کی زبان سے جے ہند نہیں نکلوا سکتا تو پاکستانی فوج، رینجرز، سیکورٹی ادارے یہ کیوں سوچ رہے ہیں کہ اپنے لوگوں پر زمین تنگ کرکے حب الوطنی کے جوہر پیدا کریں گے۔ پورا وزیرستان، سوات اور شمالی علاقوں کے لوگوں کو گھروں سے نکال کر آپریشن کریں گے اور منظور پشتین پیدا نہیں ہوں گے۔ منظور پشتین، الطاف حسین، برہمداغ، جی ایم سید وغیرہ جیسے لوگ پیدائشی طور پر تو پاکستان دشمن نہیں ہوئے۔ ان کو موقع دیا جاتا ہے ان کے ساتھ وہ سارے مظالم ہوتے ہیں تو وہ ردعمل میں کچھ بھی کر ڈالتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کوئی شروع ہی سے غیر ملکی قوتوں کا ایجنٹ تھا۔ کسی کے ڈانڈے افغانستان سے، کسی کے بھارت اور کسی کے برطانیہ سے ملتے ہیں۔ لیکن اعجاز اللہ خان کیا بھارت کے ایجنٹ ہیں، کیا پاکستان کے خلاف کام کرتے ہیں، کیا خدمت خلق ہماری ایجنسیوں کو بُری لگتی ہے؟؟ آخر کیا مسئلہ ہے کہ ایک شریف شہری کے گھر میں غنڈوں کی طرح گھس کر اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے پھر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ سارے ادارے جھوٹ بولتے ہیں کہ ہمارے پاس تو نہیں ہے۔ یہ رویہ کس ردعمل کی آبیاری کررہا ہے؟۔ کسی کے گھر کوئی پولیس کے نام پر داخل ہو، منہ پر کپڑا پہنا ہوا ہو اور اپنی شناخت نہ بتا رہا ہو تو کیا اس کے خلاف مزاحمت کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے وزیراعظم، آرمی چیف اور سب سے بڑھ کر چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار ضرور جواب دیں۔ اگر کوئی مزاحمت کرے گا تو گرفتاری کے لیے آنے والے سو کے لگ بھگ لوگ پورا گھر پھونک کر رکھ دیں گے اور ترجمان یہ بیان دے رہا ہوگا کہ القاعدہ، داعش، کسی لشکر یا بھارتی و افغان ایجنٹوں نے اس گھر سے قانون نافذ کرنے والوں پر بلاوجہ فائرنگ کردی تھی جوابی کارروائی میں سب دہشت گرد مارے گئے اور مرنے والوں میں القاعدہ برصغیر کا اہم رہنما بھی تھا۔ اب چیف جسٹس سمیت کسی میں دم ہے کہ اس بیان کو چیلنج کردے۔ آج کل سب سے زیادہ بیانات چیف جسٹس کے شائع ہوتے ہیں اس لیے ہم ان ہی سے سوال کرتے ہیں کہ ان کا ایک بیان یہ بھی ہے کہ وردی میں بندہ مارنے والوں سے حساب لینے کے لیے اللہ نے مجھے عہدہ دیا ہے۔ چیف صاحب نے یہ بیان پولیس والوں کے خلاف ایک مقدمے میں دیا ہے، بالکل بجا۔۔۔ یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہونی چاہیے کہ وہ اپنی جگہ اپنے نیچے والوں کا راعی ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال پوچھا جائے گا اور چیف جسٹس کا منصب تو بہت اونچا ہے۔ انہوں نے بہت اہم بات کہی تھی کہ وردی میں بندہ مارنے والوں کا حساب لینے کے لیے انہیں اللہ نے عہدہ دیا ہے۔ بندا مارنا تو الگ یہاں معاملہ گھر میں گھس کر بندہ اغوا کرنے کا ہے۔ چیف صاحب اگر اللہ نے آپ کو اس کام کے لیے عہدہ دیا ہے تو اعجاز اللہ خان کو اغوا کرنے والے تو ہر ادارے کی وردی پہنے ہوئے تھے۔ وہ پولیس بھی تھے، رینجرز بھی تھے فوج بھی تھے۔ ان کی گاڑیاں بھی سب کی تھیں تو اپنی ذمے داری ادا کریں محض استفسار اور طلب کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ جس طرح اسپتالوں اور دیگر مقامات پر چھاپا مارا جاتا ہے اسی طرح سیف ہاؤسز پر چھاپے ماریں یہ آپ ہی کی ذمے داری ہے۔ یہ کام کسی نہ کسی وردی کے سائے میں ہورہے ہیں۔ حیرت ہے مٹھی میں مرنے والے بچے قبروں سے کیوں نہ نکل آئے۔ کہ ہمارے بعد یہاں اسپتال بنوانے والے کو کیوں پکڑا۔ جن لوگوں کے بچے صحت یاب ہو کر گھر جارہے ہیں وہ کیسے خاموش بیٹھے ہیں۔ حتیٰ کہ 8 اکتوبر کو بالائی علاقوں میں زلزلہ کیوں نہ آگیا۔ 8 اکتوبر 2005ء سے کشمیر، بالاکوٹ، سوات وغیرہ میں مسلسل امدادی کام کرنے والے اعجاز اللہ کو کس جرم میں اغوا کرلیا گیا۔ کوئی پوچھے زلزلہ زدہ علاقوں کے لوگوں سے پہلے دن سے اپنے اغوا تک اعجاز اللہ ان کی خبر گیری کرتا رہا ہے۔ ہم اسے اغوا اس لیے لکھ رہے ہیں کہ گرفتاری تو سرکاری ہوتی ہے چوری چھپے تو اغوا ہوتا ہے۔ بہرحال تسلی رکھیں اعجاز اللہ بھی ان بہت سارے لوگوں میں سے ہے جو حب الوطنی کا حلف کسی مفاد کے بغیر اٹھائے ہوئے ہیں نہ مال نہ عہدہ۔ جس دن واپس آئیں گے لیکن سارے تو ایسے تو نہیں ہوتے۔ کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔