عمران خان نے آئی ایم ایف کی شرائط مان لیں ۔ معیشت کو مزید جھٹکا لگے گا

150

آخرکار وہی ہو اجس کے بارے میں متعد د صحافی بار بار کہتے رہے ہیں کہ ملک کے عوام کی غربت ،بے روزگاری کا خاتمہ کر نے کے لیے حکومت کو ایک ایسی پالیسی اختیار کرنے ضرورت ہے جس سے ان مسائل پر قابو پایا جا سکے اور عمران حکومت نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ اپنی آمد کے فوری بعد عوام کو بے پناہ ریلیف دے گی جس سے عوام کی غربت میں کمی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گاحکومت سے فوری طور پر گیس قیمتوں میں اضافہ کر دیا جو کاروباری لاگت میں اضافے کے علاوہ سی این جی سیکٹراورعام صنعتوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔حکومت کے اس اقدام سے عوام کے لیے مہنگا ئی کا ایک نیا سیلاب اُمڈ رہاہے اور اس کو عمران خان اپنی چکنی چپڑی باتوں سے نہیں روک سکتے ہیں عمران نے اتوار 7اکتوبر کی شام پریس کانفرنس سے عوام کو بتانے کی کوشش کر تے رہے کہ 100دن میں عوام کو نئی حکومت کے مثبت اقدامات سامنے آتے نظر آئیں گے لیکن 35دن کے دوران جس مہنگائی نے عوام کواپنی گرفت میں جکڑ دیا ہے

اس سے حکومت کے تبدیلی لانے کے دعوے پر سوال اُٹھ سکتا ہے۔ 18اگست کو عمران خان نے وزیر اعظم کا حلف اُٹھایا اور عوام نے سُکھ کا سانس لیا اور عوام کو اُمید تھی کہ ملک ترقی کی راہ پر چل پڑے گا لیکن چند دن کی پالیسیاں بتا رہی ہیں کہ ملک ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے یوٹیلیٹز کے نرخوں میں اضافہ اورمہنگائی کا سیلاب صرف عوام کے لیے ہے ۔اس وقت تک عوام کو ملک میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آرہی کیونکہ سابقہ حکومتیں بھی بغیر کسی رکاوٹ اور عوام کا خیال ایسے ہی فیصلے کر دیا کرتی رہیں ہے ۔ گیس نرخوں میں اضافے کے نتیجے میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگا جس سے غریب عوام کے علاوہ سب سے زیاد ہ تاجر اور صنعتکار متاثر ہوں گے اور وہ عوام پر مہنگائی کا سارا ملبہ ڈال کر عوام کو بے حال کر دیں گے ۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے نواز حکومت کے آخری بجٹ پیش کر نے کے موقع پر اسمبلی میں اعلا ن کیا تھا کہ ساری دنیا میں گیس کی قیمتوں میں کمی ہورہی ہے اور لیکن آج جو وہ خود وزیر خزانہ ہیں تو انھوں نے نہ صرف قیمتوں میں اضافہ کیا بلکہ وہ اس اضافہ کی صفائی بھی پیش کر رہے ہیں۔ ملک میں بہت بڑی آبادی گھریلو صنعت سے وبستہ ہے

لیکن گیس کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف ایس ایم ایز اور مقامی صنعتوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی بلکہ ملک بھر کے سیکڑوں سی این جی اسٹیشنز بند ہونے کا خدشہ ہے جس سے غریب عوام کی مشکلات بڑھیں گی اور ملک بھر میں بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو گا۔ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے سی این جی انڈسٹری مسلسل خطرے سے دوچار ہے خاص طور پر گیس لوڈشیڈنگ اور گیس نرخوں میں 40فیصد اضافہ ٹرانسپورٹ سیکٹر کو مکمل طور پر روکنے اور سزا دینے کے مترادف ہوگا۔ سندھ میں سی این جی اسٹیشنز کو ہفتہ وار تین دن گیس بندش کا سامنا ہے اور نرخ 700 فی ایم ایم بی ٹی یو جو پہلے ہی دیگر سیکٹرز کی نسبت سب سے زیادہ ادا شدہ نرخ ہے اسے بڑھا کر 980فی ایم ایم بی ٹی یوکردیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے سی این جی کی سندھ میں قیمتِ فروخت 82روپے سے 102 روپے فی کلو کے درمیان تک ہوگئی ہے جبکہ پیٹرول کی قیمت93روپے فی لیٹر ہے۔پیٹرولیم پالیسی کے مطابق پیٹرول اور سی این جی کے درمیان 30سے 35 فیصد فرق کو برقرار رکھنا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر غور کیا گیا۔ حالیہ اضافے سے سی این جی مہنگی ہونے سے غریب عوام کی معاشی طاقت کم ہوجائے گی۔ سی این جی کو پاکستان میں ٹرانسپورٹ سیکٹر خاص طور پر کم اور درمیانے طبقے کے لیے مناسب فیول کے طور پر متعارف کروایا گیا کیونکہ سی این جی اور پیٹرول کی قیمتوں کے درمیان ہمیشہ مناسب فرق رہا ہے لیکن بدقسمتی سے حالیہ اضافے سے عام آدمی کے لیے بالکل بھی پرکشش نہیں رہا اور ایسی صورت میں سی این جی انڈسٹری خطرات سے دوچار ہوجائے گی

یہ بڑی انڈسٹری مکمل طور پر تباہ اور ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گی جس سے حکومت ٹیکسوں کی مد میں حاصل ہونے والے خطیر ریونیوسے محروم ہو گی جبکہ پیٹرول کادرآمدی بل 1.2ا رب ڈالر سے بڑھ جائے گا۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں معاشی و اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل اور ان کے نفاذ پر حکومت کو گائیڈ کرنے کے لیے نجی شعبے کی سرکردہ شخصیات پر مشتمل ایک 22 رکنی کمیٹی بنائی گئی تاہم بینکنگ اور اسٹاک ایکسچینج جیسے اہم شعبوں کی نمائندگی نظر نہیں آرہی اتنی اہم کمیٹی میں کراچی چیمبر اور فیڈریشن کے صدور کو بھی شامل کیا جائے تو فائدہ ہوگا۔ کہا جارہا ہے کہ معاشی و اقتصادی کمیٹی کی تشکیل میں وزیر خزانہ اسد عمر کا اہم کردار ہے جنہوں نے اپنے اینگرو کیمیکل کے دور اور سندھ و اسلام آباد کلب کے دوستوں کو کمیٹی میں شامل کرایا ہے۔ تمام ہی ممبران وہی جانے پہچانے چہرے ہیں جو مشرف، پی پی اور مسلم لیگ ن کے دور میں بھی مختلف کونسلوں کے ممبر رہے اور اب انہیں ایک بار پھر موقع فراہم کیا گیا ہے

وہ موجودہ کونسل میں کردار اداکریں۔اگرچہ پی ٹی آئی کی حکومت ہمیشہ تبدیلی کی بات تو کرتی ہے لیکن یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اس کونسل میں کوئی بھی نیا چہرہ متعارف نہیں کروایا گیا اور سب ویسا ہی ہے جیسا پچھلی دو دہائیوں میں رہا جب ملکی معیشت میں بہتری آنے کے بجائے بحران بڑھتے ہی چلے گئے۔ اس وقت یہی ضرورت ہے کہ حقیقی اسٹیک ہولڈرز اور تاجروصنعتکار برادری کے نمائندوں کے عوام کے نمائندوں کو اس کونسل میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ وہ افراد ہیں جو زمینی حقائق سے بخوبی واقف ہیں اور تجارت و صنعت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر کرنے والے پالیسیوں کے تنائج پر روشنی ڈالنے اور بہتر تجاویز دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔نئی حکومت گیس کی قیمتوں اضافہ سے ا یک ماہ کے دوران ملک کی جوحالت کی گئی اس سے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں مل رہا ہے ۔عوام ایک دن میں کجا دو دن میں ایک وقت کی روٹی مشکل ہو تی جا رہی ۔ سی این جی انڈسٹری کو تحفظ نہ دیا گیا تو یہ ایندھن استعمال کرنے والے عوام مجبوراً پٹرول پر منتقل ہوجائیں گے جس سے انھیں مجموعی طور پراربوں روپے کا نقصان ہو گا جبکہ ملک بھر میں نقل و حمل کے اخراجات اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ جائیں گے۔