این جی او کلچر کی وباء 

301

ملک میں کرپشن کے فروغ، عوامی قبولیت اور ایک ناپسندیدہ فعل سے معاشرے کا عمومی کلچر اور رواج بن جانے کے بہت سے اسباب وعوامل ہیں۔ یہ سفر ایک جست میں طے ہوا نہ کسی ایک شخصیت کے سائے میں پروان چڑھا۔ ایک ناقابل قبول فعل سے ایک مقبول لہر بننے کے اس سفر میں کئی دہائیاں لگیں۔ اب یہ ایک ایسا تناور درخت ہے جو ایک زمانے، بااثر طبقوں، گھرانوں اور شخصیات کے لیے پھل بھی دیتا ہے اور سایہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس لہر کو موڑنے والے بے شمار کردار پاکستان میں اس لہر کی نذر ہوتے رہے۔ اس لہر کے مقابلے کے لیے اس سے کہیں بڑھ کر منہ زور دھارے کی ضرورت تھی جو اب تک پیدا نہیں ہوسکا۔ اور آج تک یہ معاملہ معاشرے کے لیے ایک نان ایشو ہے۔ کرپشن کے اسباب میں ایک اہم وجہ بیرونی امداد سے چلنے والی غیر حکومتی تنظیموں کا کلچر بھی ہے۔ ان تنظیموں کی نگرانی اہل وطن کے پاس تھی یا ان کے نگران غیر ملکی تھے اکثر اوقات دونوں کی سرپرستی میں جم کر بدعنوانیاں ہوتی رہیں۔ جو گورے اپنے ملکوں میں کرپشن تو کیا ایک سگریٹ کا ٹکڑا سڑک پر پھینکنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے این جی اوز کے کلچر کا حصہ بن کر ہمارے ملک میں آئے تو بدعنوانی کا ہر وہ طریقہ اختیار کرتے رہے جو ہمارے ہاں مروج ہے۔ ان میں اکثر منصوبے محض خدمت خلق کے جذبے سے چلنے کے بجائے ہمارے اوپر چڑھنے والے قرض کا حصہ اور نتیجہ تھے۔ یوں کرپشن کے کلچر بن جانے میں غیر حکومتی تنظیموں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ایک عمومی تاثر یہ بھی رہا کہ ان تنظیموں سے وابستہ لوگ راتوں رات امیر بن جاتے رہے اور ان کا طرز زندگی ایک انقلاب سے آشنا ہوتا دیکھا گیا مگر جن طبقات کو اوپر اُٹھانے اور جن کی زندگیوں میں رنگ اور روشنیاں بکھیرنے کے نام پر یہ اپنا سارا دھندہ چلاتی رہیں ان کے روز وشب عشروں بعد بھی تبدیل نہیں ہوئے۔
چوں کہ یہ جذب�ۂ خدمت سے عاری ایک منصوبہ ہوتا تھا جس میں بھاری سرمائے کی کارفرمائی ہوتی تھی اس لیے لوگوں کا مقصد اس رقم کو ٹھکانے لگانا ہوتا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ گورے بھی ہمارے کلرکوں سے جعلی بل بنانا سیکھ کر متعلقہ اداروں اور ملکوں کو بھیجتے تھے اور یوں پاکستان کو قرض یا خیرات کی صورت ملنے والے منصوبوں کی رقم اِدھر اُدھر کرتے رہتے اوران کے پاکستانی معاونین اپنا حصہ وصول کرکے ہی خوشی محسوس کرتے۔ غیر ملکی این جی اوز نے جب تک پاکستان کے ثقافتی، دینی اور تعلیمی کلچر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھی ہم انہیں پلکوں پر بٹھائے رہے جب یہی تنظیمیں ہمارے اسٹرٹیجک امور میں سینگ پھنسانے کے کام پرمامور ہوئیں تو خدا خدا کرکے اس کے خلاف بیزاری کی آوازیں اُٹھنے بھی لگیں اوران کو مقتدر حلقوں میں پزیرائی بھی ملنے لگی۔ اب موجودہ حکومت نے ملک میں سرگرم نو امریکی این جی اوزسمیت اٹھارہ غیر حکومتی تنظیموں کو اپنے آپریشن بند کرکے ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ وزرات داخلہ نے ان تنظیموں کو ساٹھ روز کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ این جی اوز چاہیں تو چھ ماہ بعد ازسر نو رجسٹریشن کی درخواست دے سکتی ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں سے ملک میں این جی اوکلچر کی ایک بہار سی آگئی تھی۔ ملکی این جی اوز کے ساتھ رنگ برنگی غیر ملکی این جی اوز نے بھی پاکستان کو اپنا ٹھکانہ اور نشانہ بنالیا تھا۔ ان میں کچھ تنظیمیں تو واقعی تعلیم، صحت اور ترقی کے حوالے سے ٹھوس کام خالص پیشہ ورانہ انداز میں کر رہی تھیں مگر بہت سی ایسی بھی تھیں جو اپنے کاموں کے ساتھ اپنا یا کسی دوسرے کا ایجنڈا بھی ساتھ لے کر آتی تھیں۔ وہ بظاہر تو غیر حکومتی تنظیموں کے طور پر کام کر رہی تھیں مگر اصل میں ان کا کام ملک میں ذہنی انتشار پیدا کرنا، ریاست اور ریاستی اداروں اور عوام میں خلیج پیدا کرنا، عوام کو مایوس کرنا، نسلی اور صوبائی تعصبات کو ہوا دینا، تعلیم کے نام پر نئی نسل کی برین واشنگ تھا۔ کئی تنظیمیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں، فوج، کئی سیاسی اور فلاحی گروپوں کی جاسوسی کے کام پر مامور تھیں۔ جنرل کیانی کے دور میں ان کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والی تنظیموں کے خلاف آپریشن کلین اپ کا آغاز کیا گیا تھا۔ ملک بھر میں ان کے دفاتر ختم کرنا اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنا ایک مشکل کام تھا۔ برس ہا برس کی کوشش کے بعد
ریاست اپنے اندر قائم ایک ریاست کو محدود کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ ایسی ہی ایک سرگرمی پر ریمنڈ ڈیوس مامور تھا۔ یہ کسی این جی او کا رکن تو نہیں تھا مگر کنٹریکٹر کے روپ میں ایک جاسوس ہی تھا۔ اسامہ بن لادن کی تلاش میں بھی کئی این جی اوز سے مدد لی گئی تھی۔ شکیل آفریدی بھی ایک این جی او کے لبادے میں سرگرم رہ کر امریکیوں کی خدمت بجالاتے رہے۔ ان تنظیموں میں سی آئی اے، را اور موساد سمیت کئی خفیہ اداروں کے افراد بھیس بدل کرملک کے طول وعرض میں سفر کی سہولتوں سے مستفید ہوتے رہے۔ اس کے بعد ہی سے این جی او ز کا معاملہ مستقل طور پر پاکستان میں نشان زدہ اور مشکوک ہو کر رہ گیا۔ اس کی زد ان این جی اوز پر بھی پڑی جو واقعی خدمت خلق کے جذبے کے تحت اپنی سرگرمیاں جا ری رکھے ہوئے تھیں۔
حکومت پاکستان کے آپریشن کلین اپ کے بعد اکثر تنظیمیں اپنی دکانیں بڑھا گئیں مگر کچھ بااثر تنظیمیں بدستور اپنی مشکوک سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔ اب حکومت نے مزید چھانٹی کرتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کو بوریا بستر گول کرنے کا حکم دیا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ جو این جی اوز اور ادارے کسی ملک کی سلامتی اور قانون کا احترام نہ کریں انہیں کسی طور کام کرنے کی آزادی نہیں ملنی چاہیے خواہ وقتی طور پر ان کی سرگرمیوں اور پیسوں سے معاشرے کو کوئی عارضی فائدہ ہی کیوں نہ ہورہا ہو۔ وزارت داخلہ کو اپنے فیصلے پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے اس معاملے میں کسی رعایت سے کام نہیں لینا چاہیے کیوں کہ کچھ سہولتیں اور تعمیر وترقی ملک کی سلامتی سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتی۔