سعودی صحافی کی پراسرار گمشدگی

317

سعودی عرب اور ترکی کے درمیان پہلے سے کشید ہ تعلقات اس بات کے قطعاً متحمل نہیں تھے کہ ان میں مزید دراڑیں پیدا ہوجائیں۔ سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کی استنبول میں گمشدگی کے بعد سے الزامات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جمال خاشقجی سعودی حکومت کے کڑے ناقد تھے اور واشنگٹن پوسٹ میں کالموں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ وہ ماضی میں سعودی عرب میں ایک جریدے کے مدیر اور سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ کے مشیر کے طورپر بھی کام کرچکے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030ء سے منحرف ہوکر انہوں نے سعودی پالیسی سے اختلاف کیا اور امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔ جمال کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے دیکھا گیالیکن باہر آتے دکھائی نہیں دیے۔ وہ چند دستاویزات کی تصدیق کے لیے اندرگئے تھے، جب کہ ان کی منگیتر باہر کھڑی ان کا انتظار کرتی رہ گئی۔ ترکی کا موقف ہے کہ انہیں اندر ہی قتل کردیا گیااور اس کے پاس قتل کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ترکی کے مطابق یہ واردات 15 رکنی سعودی گروہ نے کی جو ایک ہفتہ قبل ترکی آیا تھا۔ دوسری جانب ریاض حکام کا کہنا ہے کہ خاشقجی ہمارے شہری ہیں۔ ترک حکام نے قونصل خانے سے باہر آنے کے بعد انہیں گرفتار کیاجس کے وہ جوابدہ ہیں۔ اب اس معاملے میں امریکا اور برطانیہ بھی کود پڑے ہیں۔ امریکی سینیٹر لنزی گریم نے کہا ہے کہ اس معاملے میں سعودی عرب کا ہاتھ ہوا تو اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ریاض اور انقرہ میں کون ذمے دار ہے اس کا فیصلہ توآنے والے وقتوں میں ہوجائے گا، تاہم کسی تیسری طاقت کے ملوث ہونے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ترکی پہلے ہی امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتارپر شدید دباؤ کا شکار ہے۔ گو کہ امریکا کی مداخلت اس کیس میں سعودی عرب کے ایک ناقد کی حیثیت سے ہوئی ہے اور چند روز قبل سعودی بادشاہت کے حوالے سے ٹرمپ کا ایک متنازع بیان بھی سامنے آچکا ہے۔ پھر بھی آگے چل کر واشنگٹن نے اپنا وزن ریاض کے پلڑے میں ڈال دیا تو انقرہ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ ترکی نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے حقیقت بیان کرنے میں پہل کی۔ بصورت دیگر سعودی عرب مظلوم شہری کے قتل کا الزام ترکی پر ڈال چکا ہوتا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ جنگ دو مسلمان ممالک کے درمیان ہے۔ ایک حرمین شریفین کا نگران ہے تو دوسرا قبلہ اول کے مکینوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی واحد آواز۔ قصور جس کا بھی ہو ضرب براہ راست مسلمانوں ہی پر پڑے گی اور دشمن امت مسلمہ میں انتشار و تفرقے پر ہنستے رہیں گے۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق سعودی عرب نے ترکی کو استنبول کے اپنے قونصل خانے میں آ کر تلاشی لینے کی اجازت دے دی ہے۔ امکان یہی ہے کہ کوئی ثبوت ہاتھ نہیں آئے گا ورنہ اجازت کیوں دی جاتی۔اب ترکی نے ایک وڈیو جاری کر کے معاملہ مزید مشکوک بنا دیا ہے اور امریکا کو مداخلت کا موقع دے دیا ہے۔