ہوا کے گھوڑے پر سوار

364

عمرانی حکومت خود اختلافات کو دعوت دیتی اور تنازعات پیدا کرتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے فرمایا ہے کہ ہم کنٹینر سے نہیں اتریں گے۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے چنانچہ فواد چودھری جب قومی اسمبلی یا سینیٹ میں خطاب کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کنٹینر پر چڑھے ہوئے ہیں ۔ اب نیا شوشا چھوڑا گیا ہے کہ ضمنی انتخابات سے قبل پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس محمد طاہر کو تبدیل کرنے کا حکم جاری کردیا اور ان کی جگہ امجد جاوید سلیمی کی تعیناتی کا اعلامیہ جاری کردیا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے اس تبدیلی پر عمل رکوا دیا کہ یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے دو دن میں وضاحت طلب کرلی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اس تبادلے کو دھاندلی کے خدشات سے منسلک کیا ہے۔ ضابطہ اخلاق تو یہی ہے کہ انتخابات سے چند دن قبل اہم افسران کا تبادلہ نہیں کیا جاتا اور کیا جائے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ حکومت انتخابات میں من پسند نتائج کا حصول چاہتی ہے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ افسر شاہی، جسے بیورو کریسی کہا جاتا ہے،حاکم وقت کے اشارے پر عمل کرتی ہے اور کئی دہائیوں سے انتخابی عمل میں ہیر، پھیر میں ملوث رہی ہے۔ اس کے لیے دباؤ ڈالنا تو عام بات ہے لیکن اس سے بڑھ کرنتائج میں ہیر،پھیر کیا جاتا ہے۔ یہ تو ایم کیو ایم کا حوصلہ تھا کہ وہ اپنے بل پر یہ کام کرلیا کرتی تھی۔ اب وہ دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے اور جن کا نام لے رہی ہے انہی کا دست و بازو بنی ہوئی ہے۔ 25جولائی کے عام انتخابات پر اڑائی جانے والی گرد ابھی بیٹھی نہیں ہے اور ہر طرف سے کہا جارہا ہے کہ زبردست دھاندلی ہوئی ہے اور موجودہ حکومت الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ ہے یعنی یہ عوام کے ذریعے نہیں آئی بلکہ کسی اور نے منتخب کیا ہے۔ عام انتخابات کے آس پاس افسر شاہی کی تبدیلی پر تحریک انصاف احتجاج کرتی اور اسے دھاندلی کا ذریعہ قرار دیتی رہی ہے۔ اب یہ کام خود کررہی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ فواد چودھری نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ ضمنی انتخاب تو پنجاب کے چند حلقوں میں ہو رہاہے، پورے صوبے میں نہیں جبکہ آئی جی پورے صوبے کا ہوتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ پولیس کا انسپکٹر جنرل پورے صوبے کا ذمے دار ہوتا ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ کہاں نکلا کہ جن چند حلقوں میں ضمنی انتخاب ہو رہا ہے ان حلقوں پر اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن فواد چودھری خود کہتے ہیں کہ وہ گھوڑے پر سوار ہیں اور مخالفین میں سے کوئی گھوڑے کی پیٹھ پر نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ چنانچہ بدھ کو ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے بھی وہ گھوڑے پر سوار تھے اور کیوں نہ ہوں کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے گھوڑے تحریک انصاف نے اپنے اصطبل میں باندھ لیے ہیں۔ پرویز مشرف کے سابق وزیر اور غداری کے مقدمے میں ان کے وکیل فروغ نسیم، جو آج وزیر قانون و انصاف ہیں، ان سے لے کر چودھری غلام سرور تک عمران خان کی کابینہ کے 12وزیروں کا تعلق پرویز مشرف کی کابینہ سے رہاہے چنانچہ عام خیال یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت پر پرویز مشرف کا آسیب مسلط ہے۔ خود فواد چودھری بھی پرویز مشرف کے ساتھ رہ چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ساتھ ملا کر بدعنوانی سے نجات اور جمہوریت کی بات کرنا ایک خواب ہی ہوسکتا ہے جس کی بھیانک تعبیر سامنے آرہی ہے۔ آئی جی پنجاب محمد طاہر کی تبدیلی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہیں میاں محمود الرشید کاحکم نہ ماننے کی سزا دی گئی ہے۔ محمود الرشید کا بیٹا ایک اسکینڈل میں ملوث پایا گیا ہے جس پر محمود الرشید نے کہا تھا کہ ثابت ہوگیا تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ فوادچودھری نے یہ کہہ کر تصدیق کی ہے کہ سرکاری افسران کو منتخب ارکان اسمبلی کی بات ماننا ہوگی اور ہم منوا کر رہیں گے۔ فواد چودھری نے مزید فرمایا کہ آئی جی طاہر خان کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں ہٹایا، انہوں نے وزیر اعظم کا حکم نہیں مانا، کاکردگی بھی اس قابل نہ تھی۔ حکومت کے اس فیصلے پر پولیس ریفارمز کمیشن کے سربراہ ناصر درانی نے استعفیٰ دے دیا جو خود طاہر خان کو لے کر آئے تھے۔ طاہر خان کی تعیناتی کو ابھی ایک ماہ دو دن ہی تو ہوئے تھے کہ فواد چودھری نے ان کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیا۔ یہ سوال تو خود فواد چودھری کی حکومت کی کارکردگی پر لگ رہا ہے جس سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ ابھی تو عمرانی انتخاب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی پولیس کے معاملے میں سیاسی مداخلت اور عمران خان کی موجودہ اہلیہ کے سابق شوہر کی شکایت پر ڈی پی او پاک پتن کا راتوں رات تبادلہ اور اس پر عدالت عظمیٰ کی برہمی کا معاملہ گردش میں تھا کہ خود عمران خان پولیس کے معاملات میں مداخلت کربیٹھے اور فواد چودھری کے مطابق طاہر خان کو وزیر اعظم کا حکم نہ مانے پر ہٹایا گیا۔ عمران خان تو کنٹینر سے یہ ہدایات نشر کرتے رہے ہیں کہ پولیس افسران سیاسی احکامات پر عمل نہ کریں ۔ اب اگر آئی جی پنجاب کی تبدیلی کا فیصلہ واپس ہواتو یہ ایک اور یو ۔ ٹرن ہوگا۔ آخر ایسی جلدی کیا تھی۔ ضمنی انتخابات میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ کیا واقعی حکمران ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں؟