نوجوان اور ذہنی صحت

658

پروفیسرڈاکٹر محمد واسع
ہیڈ آف نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال، کراچی
mohammad.wasay@aku.edu
عالمی ادارہ صحت دنیا میں تیزی سے بڑھتے ہوئے ذہنی و دماغی امراض سے بچاؤ اورآگہی کے لیے ہر سال ایک دن وقف کرتا ہے اور اس سلسلے میں10اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔مہماتی انداز میں اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں ان بیماریوں کے خطر ناک اثرات سے آگاہ کرنا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر سے عوام الناس آگاہ کرنا ہے ۔ہر سال اس دن کے لیے ایک تھیم رکھی جاتی ہے جس کے عنوان کے تحت آگہی مہم ڈیزائن کی جاتی ہے اور دنیا بھر میںاس سے متعلق سرگرمیاں کی جاتی ہیں ۔امسال عالمی ادارہ صحت نے ’’نوجوانوں کی ذہنی صحت‘‘ کو موضوع بنایا ہے جو کہ نہ صرف یہ کہ وقت کی ضرور ت ہے بلکہ نوجوانوں میں پائے جانے والے ذہنی امراض کے تدارک کے لیے ناگزیر ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار آبادی کے لحاظ سے ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بیس کروڑ آبادی میں سے 63فیصد نوجوان ہے۔پچھلے ماہ 10ستمبر کو عالمی یوم انسداد خود کشی کے حوالے سے کچھ آگہی پر مبنی سرگرمیاں ، مضامین، بلاگز، پوسٹیں دیکھنے کو ملیں۔پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشیاں کر رہے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پیش کردہ ان اعداد و شمار کی اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ 15-29سال کے درمیان کے افراد کی اموات کی سب سے بڑی وجہ خود کشی ہے اور مجموعی خودکشیوں میں سے79%خودکشیاں تیسری دنیا کے ممالک میں ہو رہی ہیں۔بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری اینڈ بیہیوریل سائنسز اور شعبہ نفسیات بولان میڈیکل کالج کوئٹہ کے پروفیسر ڈاکٹرغلام رسول کے مطابق خود کشی کرنیوالوں میں 18سے35سال تک کی عمر کے نوجوان شامل ہیں۔خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں حالیہ چند ماہ کے دوران خود کشی کے 30 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔روزنامہ جنگ کے مطابق، ’’چترال قدرتی حسن سے مالامال ہونے کے ساتھ ملک کا سب سے پرامن ضلع ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ تاہم یہاں نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے حکومت اور ماہرین کو بھی پریشان کردیا۔اب تک کے مرتب کئے گئے ریکارڈ کے مطابق جنہوں نے خود کشیاں کیں ان کی عمریں 18 سے 39 سال کے درمیان تھیں۔ ابتدائی تحقیق کے مطابق امتحانات میں کم نمبر آنا، ذہنی دباؤ، پسند کے خلاف شادیاں اور مالی پریشانیاں خود کشی کی بڑی وجوہات ہیں۔‘‘کراچی میں بھی امسال خود کشی کے کئی کیسز رپورٹ ہوئے جن میں تمام کے تمام نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھیں۔
کسی بھی معاشرے میں خود کشی دراصل ذہنی صحت کے فقدان یا اس کی خرابی کا مظہر ہے۔انسانی ذہن ہی درحقیقت ہمارے تمام افعال کو کنٹرول کرتا ہے ،ہماری تمام تر حسیات ، مزاج اسی انسانی دماغ کی ہی مرہون منت ہوتی ہیں ۔ فی زمانہ جدید ترین مادی ترقی اور سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ نے جہاں ہماری زندگیوں میں آرام اور آسائیشیں فراہم ہی ہیں وہیں دوسری جانب ان ترقیوں کے مضر اثرات بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔آج تمام تر ترقی کے باوجود یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ روحانی اور انسانی اقدار روبہ زوال ہے‘ سماجی زندگی میں روابط کی کمی فروغ پا رہی ہے ، اسکرین کے ساتھ طویل تعلق ، تنہائی جیسے عوامل ہماری ذہنی صحت کو تیزی سے تباہ کر رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی اس سے مسلسل غفلت برت رہے ہیں۔ خوشیاں مفقود ہو رہی ہیں اور ذہنی و جسمانی عوارض بڑھتے جا رہے ہیں۔ نیند کی کمی‘ جھنجھلاہٹ‘ غصہ‘ ڈپریشن‘ عضلاتی تناؤ اور ان جیسے دیگر کئی عوارض عام ہوتے جا رہے ہیں۔ اچھی ذہنی صحت اچھی معاشرت ، خاندان کے ساتھ وقت گزارنے ، انسانی رویوں کو سمجھنے ، انسانی جذبات کی تمام اشکال سے نبرد آزما ہونے ، جسم کی فٹنس ، اچھی متوازن غذا سے حاصل ہوتی ہے ۔
عالمی ادارہ صحت کے Mental Health Action Plan 2013–2020: کے طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے کیے جانے والے سروے رپورٹ کے مطابق جو کارکردگی و اہداف جانچنے کے سوالنامے کو 194رکن ممالک میں سے 177نے جمع کرایا۔مجموعی طور پر 139ممالک میں ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی پالیسی یا پلان ماجود ہے۔ 120ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اپنی پالیسی پانچ سال کے دوران اپ ڈیٹ بھی کی ہے ۔22ممالک ایسے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ذہنی صحت کے حوالے سے پالیسی کو عمومی ہیلتھ پالیسی کے ساتھ ہی ضم کیا گیا ہے۔78ممالک میں سے35ممالک ایسے سامنے آئے جنہوں نے یہ بتایا کہ اُن کے پاس بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی پلان موجود ہے ۔اسی طرح اس سروے کے مطابق2020تک کوئی 50%رکن ممالک میں دماغی صحت کے کچھ قوانین مرتب ہو جائیں گے جو کہ عالمی و علاقائی انسانی حقوق سے مطابقت رکھتے ہوںگے ۔اس حوالے سے سماج کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کو بھی اس کا حصہ بنانے کا بھی جائزہ لیا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ مجموعی طور پر یہ شرح خاصی کم ہے تاہم جن ممالک میں بھی اس پر کام کیا گیا اُن میں بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ اشتراک 67%جبکہ مقامی این جی اوز کے ساتھ 56%اور وزارت سماجی بہبود اس ضمن میں 57%ممالک نے کردار ادا کیا۔ایک لاکھ کی آبادی کے لیے 149ممالک میں کیے گئے سروے کے مطابق صرف9ماہرین دستیاب ہیں۔اس ضمن میں صرف پاکستان کا یہ حال ہے کہ کل 500 ماہرین نفسیات اور200نیورولوجی یعنی کل 700ماہرین دستیاب ہیں جو کہ 20کروڑ کی آباد ی کے لیے ڈھائی لاکھ کے لیے ایک ڈاکٹر بنتا ہے۔
ماہرین نفسیات کاکہنا ہے کہ ذہنی بیماریاں، ڈپریشن، شراب نوشی یا کثرت منشیات کے استعمال کے باعث ذہنی توازن کھونا،بے عزتی،تشدد،مالی نقصانات، ثقافتی اور سماجی پس منظر خود کشیوں کا باعث بنتے ہیں۔ ذہنی صحت کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ خود کوکو کسی قسم کی جسمانی سرگرمی سے جوڑنا ہوگا ، جس میں آپ متحرک رہیں ۔ ورزش، چہل قدمی، سائیکلنگ، سوئمنگ، کرکٹ ، ہاکی، فٹ بال سمیت ایسی تمام سرگرمیوں میں شامل ہونا ہوگا جودماغ میں خون کے بہاؤ کو بڑھائیں۔ جان لیں کہ یہ متحرک رہنا آپ کے دل ،جسم اور دماغ کیلئے بہترین دوا ہے۔ذہنی طور پر اپنے دماغ کو سرگرم رکھنا اہم ہے۔سائنسدانوں نے معلوم کیا ہے کہ وہ سرگرمیاں جن میں سوچنا اور سیکھنا شامل ہو، جو دماغ کیلئے نئی اور للکارنے والی ہوں دماغ میں نئے خلیے بنانے میں مدد دیتی ہیں اور ان کے مابین تعلق کو مضبوط بناتی ہیں۔آپ کوئی نئی زبان سیکھنا شروع کرسکتے ہیں، حساب سے متعلق سرگرمیاں ، بہت سارے آئی کیو یا دماغی صلاحیت کو بڑھانے والے کھیل یا مشاغل جیسے باغبانی، ٹکٹ کلیکشن، مطالعہ یا مختلف ذہنی آزمائش کے مقابلوں میں یا سماجی سرگرمیوں و تقریبات میں حصہ لے سکتے ہیں ۔سماجی سرگرمیوں کا لطف اٹھائیںاور اپنے دوستوں اور خاندان کے لوگوں یا اپنی پسند کے لوگوں کے ساتھ اور اپنی پسند کے کاموں میں وقت لگانا آپ کے دماغ کیلئے اچھا ہے۔ کسی ٹیم، کتابی کلب، چہل قدمی کے گروپ میں شریک ہوجائیں۔رضاکارانہ طور پر سماجی خدمت کے اداروں کا حصہ بن سکتے ہیں ، دین سے رغبت پیدا کریں ، پابندی نماز ، پابندی تلاوت قرآن خود ایک بہت بڑی جسمانی، روحانی سرگرمی ہے ۔سفر کریں ، اپنے شہر ، ملک یا بیرون ملک کو ایکسپلور کریں ۔صحت بخش غذا کے استعمال کو یقینی بنائیں ۔ کم کھائیں لیکن بروقت اور اچھا ،صاف ستھرا کھاناکھائیں، پھلوں ، دودھ، شہد ، سبزی ، مچھلی اور خالص اناج کو لال گوشت اور چاول پر ہر حال میں ترجیح دیں ۔آپ جو کچھ کھاتے ہیں اس سے آپ کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ آج کی ابلاغی ہمہ ہمی اور برق رفتار زندگی میں والدین اپنے بچوں کے رویوںاور سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھ پاتے جس کے نتیجے میں ان گنت اخلاقی،روحانی ،سماجی ، طبی ، ذہنی و دماغی مسائل جنم لیتے ہیں۔سماجی روابط میں خلل اور اخلاقی بگاڑ تو اپنی جگہ ،مگراس عدم توجہی سے جو ذہنی امراض جنم لیتے ہیںوہ انتہائی مضر اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔اگر کسی گھر میں کوئی ذہنی مرض کا شکار ہو رہا ہو تو اسے عام سی بات سمجھتے ہیں ، جبکہ اس بیماری کا آغاز ہی یہیں سے ہوتا ہے یعنی اس بیماری میں کوئی بخار، کھانسی ،نزلہ یا پیٹ اور جسم کا درد بطور نشانی نہیں ابھرتا بلکہ یہ رویوں کے ذریعہ ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے ۔ہمارے پاس ایک ایسا ہی کیس بہت زیادہ بگڑ جانے کے بعد سامنے آیا۔کراچی کا ایک خو ش شکل اور خوبرو نوجوان طالب علم جس نے میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ، انٹرمیڈیٹ میں بھی سائنس اور میڈیکل کے مضامین میں بہترین مارکس حاصل کیے اور ڈاؤ یونیورسٹی میں ڈاکٹر بننے کی علمی و عملی جدو جہد کا حصہ بن گیا۔سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک اُس کی بھوک ختم ہو گئی ۔گھر والے سمجھے کے پڑھائی کا لوڈ ہے جو کہ عمومی طور پر میڈیکل کی پڑھائی کے دوران سمجھاجاتا ہے، مگر اُنہوں نے اپنے بچے کی روٹین ڈسٹرب ہونے کو شروع میں عام سی بات سمجھی۔وقت گزرتا گیا ، چونکہ اُسے گھر میں اسٹڈی کے لیے علیحدہ کمرہ ملا ہوا تھا اس لیے کمرے میں جب وہ زیادہ بند رہنے لگا ،تب بھی اس صورتحال کا نوٹس نہیں لیا گیا۔اس دوران نوجوان کا کھانے پینے سے جی اچاٹ ہونے لگا، نیند بھی کم ہو گئی،مزاج میں چڑچڑا پن در آیا۔دوستوں سے معلومات کیں تو کسی سے کچھ نہ پتہ چلا۔اس دوران پہلے صفائی والی ماسی نے ، پھر اُس کے چھوٹے بھائی بہن نے ،پھر والدین نے اُسے کمرے میں سگریٹ نوشی میں مبتلا پایا۔وہ ڈاکٹر بننے جا رہا تھا، نوجوان ہو چکا تھا، ہلکے پھلکے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی تو بہت زیادہ چڑ چڑے پن کا اظہار کیا گیا۔اس حد تک کہ والدین کو محسوس ہو گیا کہ اُن کا ادب و احترام بھی وہ نہیں کر رہا۔مگر پھر بھی وہ اس صورتحال کاکسی ’ذہنی بیماری ‘کا نام نہیں دے سکے اور نہ ہی ان کا ذہن ان جانب گیا۔معاملے نے سنگین صورتحال اس وقت اختیار کی جب اُس نے یونیورسٹی جانے میں عدم دلچسپی کا اظہارکیا اور کئی کئی دن یونیورسٹی نہیں گیاتب والدین نے اسے ڈاکٹر کو دکھانے کا فیصلہ کیا مگراس وقت تک حالت یہ ہو چکی تھی کہ اس نے خواب آور گولیوں کا استعمال شروع کردیا تھا۔یہ تمام علامات ذہنی صحت کے زوال کی تھیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید سے شدید ہوتی چلی گئی۔سب سے پہلا مسئلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ اُن کا بیٹا، بیٹی ، یا وہ خود بھی کسی ذہنی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس معاملے میں وہ اپنی بیماری کو شدید کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس بیماری کی انتہا خود کشی منتج ہوتی ہے جسے سادہ اور معمولی سمجھتاجاتا ہے ۔مقامی ڈاکٹر نے کیفیت کو بھانپ لیا اور فوری طور پر جب دماغ کے ڈاکٹرز کی جانب ریفر کیا تو والدین گھبراہٹ کا شکار ہوگئے ۔ بات کھلی تو پتہ چلا کہ وہ یونیورسٹی میں کسی کی عشق میں مبتلا ہوگیا ہے،اس اس عشق کی ناکامی نے اس کے دل و دماغ کو مائوف کردیا جس کا لازمی نتیجہ ڈپریشن کی صورت میں نکلا۔وہ ڈپریشن کا مریض بن گیا جو اُسے اندر ہی اندر چاٹتی چلی گئی ۔اس طرح مجھے اپنے ہسپتال میں اس کیس کا سامنا ہوا اور میں نوٹ کر رہا ہوں کہ گذشتہ چار پانچ سالوں میں میرے مریضوں میں نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔اس لیے اس حوالے سے نہ صرف ہمہ پہلو آگہی کی بہت ضرورت ہے بلکہ والدین ، دوست ،احباب سب کو اس حوالے سے خبر دار کرنے اور احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ذہنی صحت بھی ہماری جسمانی صحت کی طرح نہایت اہم ہے اور اس سے غافل رہنا قطعاًسنجیدگی نہیں۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ذہنی صحت کے حوالے سے منائے جانے والے دن کے حوالے سے ہم سب اپنا اپنا کردار ادا کریں،کسی شرم و جھجھک کے بغیر اس مہم کاحصہ بن کر اس مضمون سے حاصل ہونے والی معلومات کو لوگوں تک صدقہ جاریہ سمجھ کر پہنچائیں تاکہ بڑے پیمانے پر اس مرض سے متعلق آگاہی ہو اور ایک صحت مند پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔