تھر کا مسئلہ، حل کیا ہے؟

273

ایسا لگتا ہے کہ تھر پارکر صوبہ سندھ کا حصہ ہی نہیں ہے ۔ کئی دہائیاں گزر گئیں اس صحرا میں موت کے بگولے رقص کر رہے ہیں ۔سندھ کی حکومت نے یہاں کے باشندوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ نہ پانی ہے نہ خوراک ۔ گزشتہ 10 برس سے تو سندھ پر مسلسل پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن بے حسی بھی مسلسل طاری ہے ۔ ایک سابق وزیر اعلیٰ تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ تھر پارکر میں بچوں، بڑوں کا مرنا تو معمول ہے ، کوئی نئی بات نہیں ۔ نئی بات اس لیے بھی نہیں کہ صحرائے تھر میں مرنے والے زیادہ تر غریب ، بہت غریب لوگ ہیں ۔ اگر کسی امیر ، وزیر کے بیٹے ہوتے تو کئی بار تہلکہ مچ چکا ہوتا ۔ شاید یہ غریب لوگ کسی پارٹی کے ووٹر بھی نہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے ۔ کم از کم وہ ہی کچھ کرتے ۔ ایک سال میں اوسطاً 500 بچے مر رہے ہیں اور کوئی دن نہیں جاتا کہ 5,4 بچوں کے مرنے کی خبر نہ آئے ۔ یہاں کے غریبوں کے لیے حکومت سندھ نے جو گندم بھیجی ہے اس میں اس بار بھی ریت ، مٹی ملی ہوئی ہے ۔ ریت تو تھر پارکر میں پہلے ہی بہت ہے ، سرکاری ریت کی کیا ضرورت تھی ۔ ایسی ہی وار دات پہلے بھی ہو چکی ہے جب گندم کی بوریوں میں سے آدھی ریت ملی تھی ۔ سندھ کے وزراء کے یہ دعوے بھی پرانے ہیں کہ نہ تو غذا کی قلت ہے اور نہ ہی اسپتالوں اور دواؤں کی کمی ہے ۔ یعنی لوگ شوقیہ مر رہے ہیں ۔ لیکن معصوم بچوں کو یہ شوق لا حق نہیں ہو سکتا ۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس معاملے کا بھی نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ میں اپنے لوگوں کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ، خود جاکر تھر میں بیٹھ جاؤں گا ۔ جناب چیف جسٹس کہاں کہاں خود جا کر بیٹھیں گے ؟ ڈیم کی تعمیر کی نگرانی کے لیے جھونپڑی ڈال کر بیٹھیں گے یا تھر کے صحرا میں دھونی رمائیں گے؟ بلا شبہ ان کا جذبہ قابل قدر ہے کہ جب حکمران توجہ نہیں دے رہے تو کوئی تو آواز اٹھائے ۔ اس پر کہا جاتا ہے کہ چیف جسٹس کا جو کام ہے اس پر توجہ دیں ۔لیکن اگر متعلقہ ادارے اور حکمرانوں نے توجہ دی ہوتی تو چیف جسٹس کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔ گزشتہ منگل کو جناب چیف جسٹس نے تھر کے حوالے سے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی کارکردگی صفر ہے ، غذائی قلت کا مسئلہ ایک عرصے سے چل رہا ہے ۔ جناب ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ گھر ، پانی اور خوراک دینا کس کی ذمے داری ہے؟ رپورٹ نہیں اس مسئلے کا حل چاہیے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تھر پارکر میں اسپتال ہیں ، ڈاکٹر نہیں ، مشینیں ہیں آپریٹر نہیں ۔ جس ڈاکٹر کو وہاں بھیجا جاتا ہے وہ اسے سزاسمجھتا ہے اور پھر مریضوں کو سزا دیتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ جو بھی کئی برس لگا کر ڈاکٹر بنتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ کما کر نہ صرف اپنے اخراجات نکالے بلکہ دولت بھی سمیٹ لے۔ یہ کام بڑے شہروں ہی میں ہو سکتا ہے، تھر پارکر یا کسی گاؤں دیہات میں نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اندرون سندھ کے ڈومیسائل پر میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کر لینے والے بھی اپنے علاقے میں نہیں جاتے ۔ اس کا حل یہ ہے کہ اگر ہر ڈاکٹر کو نہیں تو کم از کم اندرون سندھ کے ڈومیسائل پر داخلہ لے کر ڈاکٹر بننے والوں کو پابند کیا جائے کہ وہ 5 سال تک اندرون سندھ اورتھر پارکر میں کام کریں گے ۔ لیکن جیسا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو بھیج بھی دیا جائے تو وہ خوش دلی سے کام نہیں کریں گے اور اپنی کدورت مریضوں پر نکالیں گے ۔ پہلے کبھی ڈاکٹروں کو مسیحا سمجھا جاتا تھا جو مریضوں کی خدمت کو عبادت سمجھتے تھے ۔ مگر اب ہر طرف اخلاقی قدروں میں زوال آیا ہے ۔ حکومت ہو میو پیتھی طریقہ علاج اور طب کی سر پرستی نہیں کرتی جب کہ پڑوسی ملک بھارت میں ہومیو پیتھی طریقہ علاج کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ یہ طریقہ علاج امریکا اورجرمنی میں بھی مقبول ہے ۔ تھر پارکر سمیت گاؤں دیہات میں اس طریقے کو فروغ دیا جاسکتاہے ۔ جہاں تک اسپتالوں میں مشینوں کے ہوتے ہوئے آپریٹر نہیں ہیں تو اس کی ذمے دار حکومت ہے ۔ حکمرانوں کا دعویٰ یہ ہے کہ اسپتالوں میں دواؤں سمیت تمام سہولتیں دستیاب ہیں جب کہ ایسانہیں ہے ۔عدالت عظمیٰ میں رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے بتایا کہ تھر میں بہت زیادہ کرپشن ہے ، کوئلے کی وجہ سے زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں ۔ جو خوراک آتی ہے اس میں ایم این اے اور ایم پی اے کا حصہ بھی ہوتا ہے ، منشیات فروشوں کا راج ہے ، اربوں روپے لگا کر افتتاح کرنے کے باوجود تھرکول پلانٹ بند پڑا ہے ۔ یہ سب معاملات ایسے ہیں جن کا تعلق حکومت اور انتظامیہ سے ہے ۔ یہ بھی رپورٹ ملی تھی کہ امدادی سامان کا بڑا حصہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے گھروں میں پہنچ جاتا ہے اور گندم کی تقسیم میں بھی امتیاز برتا جاتا ہے، پارٹی سے وابستگی دیکھی جاتی ہے ۔ سندھ کے سیکرٹری ہیلتھ نے تو بچوں کی ہلاکت کا جواز یہ پیش کر دیا کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ نہیں ہوتا ، ماؤں کی صحت ٹھیک نہیں ۔ فیملی پلاننگ نہ ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ۔ جواز تو بہت سے تلاش کر لیے گئے ہیں جو مشکل کام نہیں ہے لیکن چیف جسٹس کے اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ خوراک اور پانی فراہم کرنا کس کی ذمے داری ہے۔ الخدمت نے ان علاقوں میں بہت کام کیا ہے ، کنویں کھدوائے اور کاروبار کے لیے بلا سود قرضے بھی دیے ، اسکول و مساجد تعمیر کروائیں ۔ ان کاموں میں الخدمت کے جنرل سیکرٹری اعجاز اللہ نے بے لوث خدمت سرانجام دی جس کو لا پتا کر دیا گیا ۔ سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی معقول سیاستدانوں میں سے ہیں لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ تھر پارکر میں بچوں کی اموات کا تناسب ملک بھر میں سب سے کم ہے ،کچھ ذرائع ابلاغ تھر کے بارے میں بے پرکی اڑا رہے ہیں اور جو خبریں شائع ہو رہی ہیں وہ حقائق سے بہت دور ہیں ۔ سعید غنی نے فیصلہ دیا کہ تھر پارکر میں لوگ ناقص تغذیہ سے ہلاک نہیں ہو رہے ، سب کو گندم فراہم کی جا رہی ہے ۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ تھر کے لوگوں کو مرنے کا شوق ہو گیا ہے ، بلا وجہ مر رہے ہیں ۔