مسلم لیگ (ن) کے ایک سابق صوبائی وزیر رانا مشہود نے پارٹی کارکنوں کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ پارٹی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات درست ہوگئے ہیں۔ تعلقات کو معمول پر لانے میں محترم شہباز شریف نے اہم کردار ادا کیا ہے، دو مہینے کی بات ہے پنجاب میں ہماری حکومت ہوگی۔ بظاہر یہ پارٹی کارکنوں اور (ن) لیگ میں اقتدار کے متوالوں کے لیے بڑی خوشی کی بات تھی لیکن رانا مشہود کے بیان سے سیاست کی دنیا میں ہلچل آگئی۔ سب سے پہلے تو خود مسلم لیگ (ن) نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا، پارٹی ترجمان مریم اورنگزیب نے اسے رانا مشہود کے ذاتی خیالات قرار دیتے ہوئے پارٹی کی طرف سے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور میڈیا کو بتایا کہ اس بیان پر رانا مشہود سے جواب طلبی کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر جناب شہباز شریف اس بیان پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے وہ بھی گرجے اور رانا مشہود کی پارٹی رکنیت معطل کردی۔ سب سے اہم ردعمل فوج کے ترجمان کا تھا جس نے اس بیان کو غیر ذمے دارانہ اور ملکی استحکام کے منافی قرار دیا تھا۔ ابھی اس بیان پر بیت بازی جاری تھی، اخبارات میں دھڑا دھڑا کالم لکھے جارہے تھے، الیکٹرونک میڈیا کے ٹاک شوز کو نہایت دلچسپ موضوع ہاتھ آگیا تھا جس پر تجزیہ کار خوب قیاس کے گھوڑے دوڑا رہے تھے کہ اچانک ایک دھماکا ہوا اور سارا منظر بکھر کر رہ گیا۔ یہ دھماکا شہباز شریف کی گرفتاری کا تھا جس نے رانا مشہود کے دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی تھی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کا سارا بیانیہ ہوا میں اُڑ گیا، پنجاب کے سابق خادم اعلیٰ اس وقت دس روزہ ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں ہیں، انہیں بلایا تو صاف پانی اسکینڈل میں پوچھ گچھ کے لیے گیا تھا لیکن گرفتاری آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں عمل میں آئی ہے، اسی اسکینڈل میں شہباز شریف کے چہیتے بیورو کریٹ اور منہ بولے بیٹے احد چیمہ بھی کئی ماہ سے گرفتار ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ’’باس‘‘ کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہوگئے ہیں جب کہ شریف برادران کے ایک اور پسندیدہ بیورو کریٹ فواد حسن نے بھی شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی پیش کش کردی ہے کہ وہ بھی ان دنوں نیب کے زیر عتاب ہیں اور اپنی گردن چھڑانا چاہتے ہیں۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ضمنی انتخابات سر پہ ہیں اور حکمران پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مقابلے میں (ن) لیگ کے امیدواروں کی پوزیشن زیادہ مضبوط نظر آرہی ہے۔ عام انتخابات میں لاہور کے حلقہ 131 سے خواجہ سعد رفیق پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے مدمقابل تھے، مقابلہ بڑا سخت تھا، ووٹوں کی گنتی میں عمران خان کو صرف 6 سو کی برتری حاصل تھی اور ان کی کامیابی کا اعلان کردیا گیا تھا لیکن خواجہ سعد رفیق نے ہار نہ مانی وہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس چلے گئے، الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی کا حکم دے دیا تو عمران خان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں، فوراً عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور عدالت عظمیٰ نے دوبارہ گنتی کا حکم کالعدم قرار دے کر ان کی جیت کو مستقل کردیا۔ اب عمران خان کی طرف سے یہ نشست چھوڑنے پر یہاں ضمنی انتخاب ہورہا ہے تو سعد رفیق اس حلقے سے پھر امیدوار ہیں اور ان کی جیت یقینی نظر آرہی ہے جو حکومت کے لیے ایک چیلنج کا درجہ رکھتی ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے خواجہ سعد رفیق کے گرد احتساب کا شکنجا کسا جارہا ہے اور کیا خبر ضمنی انتخاب سے پہلے وہ بھی اسی طرح نااہل قرار پاجائیں جس طرح حنیف عباسی عام انتخابات سے قبل نااہل قرار پاگئے تھے اور شیخ رشید کی لاٹری نکل آئی تھی۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق بھی ’’بی بی پاک دامن‘‘ نہیں ہیں، وہ جس طرح دیکھتے دیکھتے ککھ پتی سے ارب پتی بنے ہیں وہ سب کے سامنے ہے وہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے کئی اسکینڈلز میں ملوث ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے انتخابی حلقے میں مقبول بھی ہیں۔ اب ضمنی انتخاب کے موقع پر ان کا احتساب کوئی اور کہانی سنا رہا ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ایسی بہت سی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔
شہباز شریف جب ’’خادم اعلیٰ‘‘ تھے اس وقت بھی ان کا یہ تکیہ کلام تھا کہ اُن پر ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہوجائے تو انہیں اُلٹا لٹکا دیا جائے، اب اپنی گرفتاری کے بعد بھی انہوں نے نیب کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے اسی موقف کو دہرایا ہے کہ انہوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ یار لوگوں نے اس پر یہ لطیفہ گھڑ رکھا ہے کہ شہباز شریف ایک دھیلے کی کرپشن کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے کہ اب یہ سکہ رائج الوقت نہیں رہا، مدت ہوئی متروک ہوچکا ہے۔ شہباز شریف کا معاملہ یوں بھی مالی کرپشن کا نہیں، اختیارات کی بے تحاشا کرپشن کا ہے، انہوں نے پنجاب پر دس سال تک ایک مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے حکومت کی ہے، تمام اختیارات اپنی ذات میں سمیٹ کر رکھے ہیں، میرٹ کو بُری طرح پامال کیا ہے اور من پسند بیورو کریٹس کو کھل کھیلنے کی اجازت دی ہے، اس طرح پنجاب کے تمام میگا منصوبوں میں کرپشن کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں جس کی براہ راست ذمے داری شہباز شریف پر عاید ہوتی ہے۔ ان کا ایک سنگین ترین جرم یہ ہے کہ انہوں نے اورنج ٹرین کے شوقِ فضول میں تاریخی شہر لاہور کو اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کا تاریخی ورثہ تباہ کر ڈالا ہے۔ انہیں محض آشیانہ اسکینڈل میں پکڑنا درست نہیں ان کی دس سالہ کارکردگی پر باقاعدہ ایک تحقیقاتی کمیشن بننا چاہیے جو اس بات کا جائزہ لے کہ سابق خادم اعلیٰ نے قومی وسائل کس بڑے پیمانے پر ضائع کیے ہیں اور صوبے کو کتنا مقروض کیا ہے۔ ان کے جرم کے حساب سے انہیں سزا ملنی چاہیے، یہ کام نہایت سلیقے اور اطمینان سے کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان بہت جلدی میں ہیں، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے یعنی احتساب کا کام انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے حالاں کہ احتساب کا ایک خود مختار ادارہ موجود ہے جو اپنا کام کررہا ہے۔ عمران خان کے میدان میں کودنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کے حریف کرپٹ افراد کی مشکیں کسی جارہی ہیں اور ان کے حلیف کرپٹ افراد اقتدار کی پینگیں لے رہے ہیں۔
یہ سب کچھ تو پہلے بھی ہورہا تھا۔ تبدیلی کیا آئی ہے؟