لیجیے پاکستان اہل ہوگیا۔۔۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ 100 دن مکمل ہونے سے پہلے کپتان نے بڑا چھکا لگادیا۔۔۔ جی ہاں دنیا بھر میں پاکستان کو نااہلیت کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا، ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ میچ کھیلنا پڑے گا، چمپئنز ٹرافی سے باہر ہوگئے اہلیت نہیں تھی۔۔۔ اولمپکس کے کئی ایونٹس سے بھی نااہلیت کی وجہ سے باہر ہوگئے تھے اب حکومت نے زبردست کام کیا ہے آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن تسلیم کرکے اس سے قرض لینے کی درخواست دینے کے اہل ہوگئی اور ادھر شرائط پوری کیں ادھر وفد روانہ کردیا۔ بڑا چھکا یہ ہے کہ دسمبر سے اب تک سست روی سے ڈالر کی قدر بڑھ رہی تھی ایک ہی دن میں دس روپے سے زیادہ بڑھادی اور 124 روپے والا ڈالر 137 تک پہنچ گیا جسے آئی ایم ایف کی ہدایت پر 140 تک پہنچانا ہے۔ آج کل عمران حکومت کے ترجمان فواد چودھری نے سختی کے ساتھ کہا تھا کہ میڈیا ابھی سے تنقید نہ کرے لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ میڈیا کب سے تنقید کے لیے آزاد ہوگا۔ وزیراعظم کو بھی یہی شکوہ تھا کہ 100 دن مکمل ہونے دیں پھر میڈیا ہمارے کاموں پر تنقید کرے۔ لیکن اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ 100 دن پورے ہونے سے قبل ہی سارا کام ہوجائے گا۔ ممکن ہے سوویں دن آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لے لیا جائے۔ اسے ہم بیل آؤٹ تو نہیں کہہ سکتے، جو کچھ حکومت نے کیا ہے اور جو کرنے جارہی ہے اس کے نتیجے میں تو پوری قوم جیل ان پیکیج کا شکار ہونے جارہی ہے، ہمارا بھی ارادہ تو یہی تھا کہ 100 دن تک انتظار کریں اور ہر روز کے ایک بڑے کام کو نوٹ کرلیا کریں۔ 100 دن مکمل ہونے پر یومیہ جائزہ لیا جائے اور بتایا جائے کہ حکومت نے کس دن کون سی غلطی کی تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں۔ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی اصطلاح تو پرانی ہوگئی یہاں تو کپتان لیٹ ہی گئے ہیں۔ پتا ہونے کے باوجود ہم یہی کہیں گے کہ پتا نہیں کون سی قوت عمران خان سے وہی فیصلے کروا رہی ہے جن کے خلاف وہ کنٹینر کے اوپر اور جلسوں میں خوب بولا کرتے تھے۔ اگر خان صاحب کی حکومت کے 100 دن پر کتاب مرتب کی جائے تو کم از کم ہزار صفحات پر مشتمل زبردست کتاب شائع ہوگی۔ یوں تو حکومتیں آتی ہیں اور وہی باتیں کرتی ہیں جو عمران خان کی حکومت کہہ رہی ہے اور کرتی بھی رہی ہیں جو عمران کی حکومت کررہی ہے لیکن عمران خان کی رفتار بہت تیز ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جس نے انہیں یہ بتادیا تھا کہ اب کی بار وزیراعظم عمران خان ہے اس نے یہ بھی بتادیا ہے کہ سال دو سال کا وقت ہی ملے گا۔ لہٰذا 100 روزہ منصوبے پر 50 روز میں ہی عمل کرلیا گیا اور 5 سالہ منصوبے پر اگلے 50 دنوں میں عمل ہوگا۔ جب بھی نئی حکومت آتی ہے اس کا پہلا بیان ہوتا ہے کہ پچھلی حکومت نے خزانہ خالی کردیا تھا سب
لوٹ لیا، ہم تو کشکول توڑنا چاہتے تھے لیکن ورثے میں معاشی بحران ملا ہے۔ بس ایک کڑوی گولی نگلنی ہوگی اس کے بعد حالات بہت اچھے ہوجائیں گے۔ عمران خان، اسد عمر اور آج کل عمران خان کے ترجمان فواد چودھری بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ بس مشکل فیصلے کرنے پڑرہے ہیں، پھر خوشحالی ہی آئے گی۔ عمران خان نے بھی کہا ہے کہ موجودہ حکومت ملک کو دلدل سے نکالے گی۔ چیلنجز بہت زیادہ ہیں مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ یہ نہیں بتایا کہ دلدل میں دھکیلا کس نے۔ ان کا لطیفہ بڑا زبردست ہے، کہتے ہیں کہ نئی معاشی پالیسی سے عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے۔ اس پر قہقہہ ہی لگایا جاسکتا ہے، جن فیصلوں پر عوام کو اعتماد نہیں ان پر اعتماد میں کیسے لیں گے۔ فیصلے کرنے کے بعد بھی کوئی اعتماد میں لیتا ہے۔ یہ تو اطلاع ہوگی اور اطلاع کا جہاں تک تعلق ہے وہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی اگلی صبح انڈے خریدنے والوں کو ہوگئی۔ ایسا لگا کہ انڈوں کے ریٹ کا ڈالر کے ریٹ کے ساتھ تعلق ہے۔
کس بات پر اعتماد میں لیا جائے گا؟ ڈالر 140 تک پہنچانے پر پیٹرول 140 تک اور سی این جی 104 پر پہنچانے پر یا سونا مہنگا کرنے پر۔ ظاہری بات ہے ان میں سے کسی بات پر اعتماد میں لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا، کیوں کہ سارے کام تو ہوچکے ہوں گے، اب پارلیمنٹ کیا کرلے گی، کیا پاکستانی پارلیمنٹ کا فیصلہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے کو کالعدم کرسکتا ہے؟ اور اگر پارلیمنٹ یہ کہہ بھی دے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں پھر بھی حکومت یہ فیصلہ نہیں لے گی۔ اس سے قبل پاکستانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستانی حدود میں داخل ہونے والے ڈرون گرادیے جائیں لیکن اس کے بعد بھی درجنوں ڈرون حملے ہوگئے، یہ حملے پارلیمنٹ کے فیصلے سے تو نہیں رُکے، لہٰذا پارلیمنٹ کے بارے میں عمران خان کو یہ کہنا چاہیے کہ اسے بتادیں گے۔
ایک اور بہت بڑا کارنامہ عمران خان نے کیا ہے اسے تو دنیا کے تمام ممالک کے وزرائے اعظم کی تربیت کے لیے لازمی کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے ڈالر 137 روپے پر پہنچانے والے وزیراعظم بتارہے تھے کہ بسوں کے اڈے پر اور جہاں کہیں بیت الخلا گندا ہوگا اس کے ذمے داران کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس لطیفے پر بہرحال عمران خان کو داد دینی چاہیے قوم کو ایک جھٹکے میں کھربوں روپے کے مزید قرضوں کا تحفہ دے دیا، مہنگائی میں اضافہ ہوگیا اور خان صاحب بیت الخلا صاف کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ خان صاحب کو بھی پتا ہونا چاہیے بلکہ پتا ہی ہوگا کہ جب لوگوں کو کھانے کے لالے پڑ جائیں گے تو بیت الخلا میں کیا کریں گے۔ کم از کم گندگی تو نہیں کرسکیں گے، اس پر بلاول یاد آگئے، اسمبلی میں خطاب میں یہ جملہ بڑا مشہور ہوا کہ اسمبلی گالیوں سے، معیشت قرضوں سے اور ملک جادو سے نہیں چلتا۔ اس میں اضافہ ہونا چاہیے کہ بیت الخلا کی صفائی سے ملک ترقی نہیں کرتا، لیکن کیا کیا بتائیں، کم از کم ترجمان تو بدل لیں خوامخواہ لگتا ہے کہ ابھی جوش خطابت میں یہ کہنے لگیں گے کہ جناب جنرل پرویز مشرف کا وژن ہے کہ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ آخر ماضی میں بار بار یہ کہنے کی عادت تو تھی۔