شریفوں کی طاقت اور اسٹیبلشمنٹ کے تضادات

418

 

دنیا میں ایسے شخص، ایسی جماعت، ایسی حکومت، ایسی اسٹیبلشمنٹ کا تصور محال ہے جس کے قول و فعل میں کوئی تضاد موجود نہ ہو۔ اس کی ایک وجہ میر تقی میر کے الفاظ میں یہ ہے؂
جگر کا وی، ناکامی دنیا ہے آخر
نہیں آئے جو میر کچھ کام ہوگا
اردو کی کلاسکی شاعری میں محبوب کی بے وفائی کا ماتم عام ہے اور اس بے وفائی کی وجہ رقیب روسیاہ رہا ہے۔ مگر میر نے مذکورہ بالا شعر میں معاملے کو الٹ دیا ہے۔ میر کہہ رہے ہیں کہ محبوب وعدے کے باوجود ملنے نہیں آیا تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اسے کوئی مشکل لاحق ہوگئی ہے۔ کسی مجبوری نے اسے آنے سے روک دیا ہوگا۔ آخر دنیا اسی کا نام ہے، آدمی چاہتا کچھ ہے اور ہو کچھ اور جاتا ہے۔ بسا اوقات آدمی کی لاکھ کوششیں بھی اس کے کام نہیں آپاتیں۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں انسان کی زندگی تضاد آلود ہوسکتی ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے تضاد کوئی معذوری یا مجبوری نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ تضاد کو ایک پالیسی اور ایک حکمتِ عملی بنائے ہوئے ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہاتھوں ’’شریفوں‘‘ کی سزاؤں کی معطلی اور ان کی رہائی ہے۔ اس سلسلے میں اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے فرمایا کہ شریفوں کو نہ کوئی ڈھیل دی گئی ہے اور نہ ان کے ساتھ کوئی ڈیل ہوئی ہے، لیکن ہم نے 28 ستمبر سے 4 اکتوبر 2018ء کے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے شمارے میں ٹھوس شہادتوں کے ذریعے ثابت کیا کہ میاں نواز شریف، ان کی دختر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کی رہائی کی پشت پر ڈھیل بھی رقص کناں ہے اور ڈیل بھی۔ اس سلسلے میں میاں شہباز شریف نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس ڈھیل اور ڈیل کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ میاں نواز شریف عدالت سے پروانہ آزادی حاصل کرنے کے باوجود نہ اسلام آباد سے لاہور تک ’’سڑک مارچ‘‘ پر آمادہ ہوئے اور نہ انہوں نے یا ان کی دختر نیک اختر نے اعلیٰ عدالتوں کی عزت و عصمت پر حملہ کیا اور نہ انہیں مشہور زمانہ ’’خلائی مخلوق‘‘ کے بارے میں شعلے اگلنے کی توفیق ہوئی۔
اس سلسلے میں کان پھاڑ دینے والی خاموشی ہر طرف طاری تھی کہ نواز لیگ کے رہنما اور پنجاب کے سابق صوبائی وزیر رانا مشہود میدان میں کود پڑے۔ انہوں نے ڈھیل اور ڈیل کے الفاظ استعمال کیے بغیر ڈیل اور ڈھیل دونوں کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلقات اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہت بہتر ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ ہماری ’’ان کے‘‘ ساتھ پس پردہ ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور ان ملاقاتوں سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لا کر پچھتا رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو گھوڑا سمجھا تھا مگر وہ خچر نکلی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت آئندہ دو تین ماہ میں پنجاب کے اندر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ انہوں نے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ میاں شہباز شریف اسٹیبشلمنٹ کے لیے ہمیشہ ہی قابل قبول رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی بہتری گویا انہی کی کوششوں کا حاصل ہے۔
رانا مشہود صاحب کے اس بیان کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے فرائیڈے اسپیشل میں ہمارے کالم پڑھنے کے بعد زبان کھولی ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ رانا صاحب کے اس بیان میں پوری شدت کے ساتھ یہ خیال بھی موجود ہے۔
’’اسٹیبلشمنٹ اور شریف خاندان بھائی بھائی‘‘
ہمیں یاد ہے کہ 1999ء میں میاں نواز شریف پر الزام تھا کہ انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغوا کرایا اور جان بوجھ کر آرمی چیف اور ان کے فوجی رفقا کی جان کو خطرات سے دوچار کیا۔ اس حوالے سے قائم ہونے والے مقدمے میں میاں صاحب کو سزائے موت ہوسکتی تھی۔ مگر اتنے سنگین الزام کے باوجود اچانک میاں صاحب کی غیر معمولی طاقت بروئے کار آئی۔ اس طاقت نے اسٹیبلشمنٹ نوازشریف بھائی بھائی کی صورتِ حال پیدا کی اور میاں صاحب ملک کے قانون، اعلیٰ عدالتوں اور ان کے فیصلوں کا منہ چڑاتے ہوئے ایک سمجھوتے کے تحت سعودی عرب سدھار گئے۔ طاقت ہو تو ایسی ہو۔ بھائی چارہ ہو تو ایسا ہو۔ اس صورتِ حال نے خود میاں صاحب کے بارے میں نہیں بلکہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں اور خود اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سنگین ترین سوالات کو جنم دیا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے معزز جج میاں نواز شریف کو ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’سسلین مافیا‘‘ کے القابات سے نواز رہے تھے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں صاحب صبح و شام سرِ عام عدالتوں اور ’’خلائی مخلوق‘‘ کا مذاق اُڑا رہے تھے، انہیں بے توقیر کررہے تھے، یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نواز شریف کے ایک فرزند ارجمند کہہ رہے تھے کہ ایون فیلڈ کے فلیٹس ہم نے کرائے پر لے رکھے ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں صاحب کے دوسرے فرزند تسلیم کررہے تھے کہ فلیٹ ہماری ملکیت ہیں، یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں صاحب کی دختر نیک اختر فرما رہی تھیں کہ ان کی بیرونِ ملک کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں صاحب قومی اسمبلی کو بتا رہے تھے کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے ایون فیلڈ کی جائداد خریدی گئی۔ مگر میاں صاحب کا کیس اچانک ہر شہادت سے زیادہ قومی ہوگیا اور قانون و انصاف کی پابند بیچاری اسلام آباد ہائی کورٹ اسلام کے تصور عدل کی پاسداری کرتے ہوئے شریفوں کی سزا معطل کرنے اور انہیں رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں ہمیشہ ہی آزادانہ فیصلے کرتی ہیں، چناں چہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا رانا مشہود کے بیان سے کوئی تعلق نہیں۔
رانا مشہود کے بیان پر ردِعمل کی کئی اہم صورتیں سامنے آئیں۔ پہلا ردِعمل خود نواز لیگ کا ہے، اس ردعمل کے تحت پہلے یہ کہا گیا کہ رانا صاحب کے بیان پر پارٹی کو ’’حیرت‘‘ اور ’’تعجب‘‘ ہے۔ بات آگے بڑھی تو نواز لیگ نے رانا صاحب کے بیان کی تردید کردی۔ پھر رانا صاحب کی پارٹی رکنیت ہی معطل کردی گئی اور اب اطلاع آئی ہے کہ ایک تین رکنی کمیٹی بنادی گئی ہے جو رانا صاحب سے تحقیق یا تفتیش کرکے رپورٹ مرتب کرے گی۔ نواز لیگ میں کسی رہنما کی یہ جرأت نہیں کہ وہ ’’شریفوں‘‘ سے پوچھے بغیر سانس بھی لے سکے۔ بیان دینا تو بہت ہی بڑی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز لیگ کو رانا صاحب کے ذریعے جو ’’پیغام‘‘ عام کرنا تھا وہ کردیا گیا اور اس سے نواز لیگ اور شریفوں کو جو فائدہ اٹھانا تھا اٹھایا جاچکا۔ رہی رانا مشہود کی معطلی تو وہ اس سے پہلے بھی ایک بار معطل ہو چکے ہیں۔ کمیٹی کا قصہ یہ ہے کہ نواز لیگ نے ختم نبوت جیسے سنگین اور حساس مسئلے پر بھی راجا صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کئی ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔
رانا مشہود کے بیان پر ایک ردِعمل خود رانا مشہود کا آیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ان کے بیان کو تناظر سے ہٹ کر پیش کیا گیا لیکن ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے کہ ٹی وی چینلوں نے ان کے منہ میں اپنی زبان نہیں ڈالی بلکہ رانا صاحب کی sound bites چلادیں۔
رانا مشہود کے بیان پر عمران خان کے نفس امارہ اور اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے بھی کلام کیا۔ انہوں نے کہا کہ رانا مشہود کی سطح تو پٹواریوں کے معاملات ہیں، انہیں کیا معلوم کہ کیا مذاکرات ہورہے ہیں۔ غور کیا جائے تو اس بیان میں فواد چودھری نے تسلیم کرلیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور شریفوں کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں یا ہورہے ہیں البتہ رانا مشہود کو ان مذاکرات میں ہونے والی باتوں کی ہوا بھی نہیں لگی۔ لیکن یہاں مسئلہ تو ڈھیل اور ڈیل کا ہے۔ کس کو اس کی خبر ہے اور کس کو اس کی خبر نہیں ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
رانا صاحب کے بیان پر سب سے اہم ردعمل آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور صاحب کا آیا۔ انہوں نے کیا فرمایا ایک بار پھر ملاحظہ کرلیجیے۔ انہوں نے رانا مشہود کے بیان کو افسوس ناک، بے بنیاد اور ملک کے استحکام کے لیے ضرر رساں یا ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والا قرار دیا۔ رانا مشہود نواز لیگ کے صوبائی سطح کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر ہیں مگر اس کے باوجود آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کو ان کے بیان پر تبصرہ کرنا پڑا۔ اس سے رانا مشہود کے بیان کی طاقت اور اسٹیبلشمنٹ کی کمزوری ظاہر ہورہی ہے۔ بیان کے دوسرے حصے میں میجر جنرل آصف غفور نے ایک جانب رانا مشہود کے بیان کو بے بنیاد یا Baseless قرار دیا ہے اور دوسری جانب اسے ملک کے استحکام کے لیے خطرناک یا ضرر رساں بھی قرار دیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک کا استحکام اتنا کمزور ہے کہ نواز لیگ کا ایک صوبائی سطح کا رہنما ایک ’’بے بنیاد بیان‘‘ جاری کرے گا اور اس سے ملک کے استحکام کو خطرات لاحق ہوجائیں گے یا اس کا اندیشہ پیدا ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ شریف خاندان صرف خاندان ہے یا دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کہ پاکستان کے داخلی استحکام کو خطرات سے دوچار کردے؟۔ بے شک شریفوں کی طاقت بے پناہ ہے، کوئی جرم بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لوٹ مار! اعلیٰ عدالتوں کی تذلیل! بھارت نوازی! امریکا پرستی! ختم نبوت پر حملے کی جرأت، کسی چیز کی کوئی اوقات نہیں، خدا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی کو کچھ بنائے یا نہ بنائے شریف ضرور بنائے۔ یہ سطور مکمل جاچکی تھیں کہ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کی خبر آگئی۔ سوال یہ ہے کہ اس گرفتاری کا مفہوم کیا ہے؟ کیا یہ کہ میاں شہباز شریف کو مار مار کر میاں نواز شریف کی سطح کا رہنما بنایا جارہا ہے؟ یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ شہباز شریف نے رانا مشہود کے ذریعے ڈیل اور ڈھیل پر گفتگو کراکے غلطی کی؟ ان سوالات کے جوبات یا اصل صورتِ حال جلد سامنے آجائے گی۔ بس تھوڑا سا انتظار۔