آئی ایم ایف کا پھندا جان لیوا ثابت ہوگا

519

 

 

پاکستان کی معیشت آج کل جس سنگین بحران سے دوچار ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے فیصلہ کا اعلان کیا ہے۔ لیکن سخت تعجب کی بات ہے کہ اس اعلان سے پہلے ہی قرضے کی شرائط پر مذاکرات ہو چکے تھے جب کہ ہیرلڈ فنگر کی قیادت میں آئی ایم ایف کی ایک ٹیم 27 ستمبر کو اسلام آباد آئی تھی اور وزیر خزانہ اسد عمر اور ان کے مشیروں سے آٹھ روزہ بات چیت کے بعد 4 اکتوبر کو اس ٹیم کے قائد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان، معیشت کے فروغ میں تنزل، مالی خسارے میں بے حد اضافے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، کی نہایت کم سطح کی وجہ سے سنگین اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ان مذاکرات میں ہیرلڈ فنگر نے لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی پوری کرنے اور مالی خسارے کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے روپے کی شرح قیمت میں نمایاں کمی کرنی پڑے گی اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ، امریکا کی مالیاتی پالیسی میں تبدیلی اور ترقی پزیر ملکوں کی منڈیوں کو درپیش مالی بحران کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کے فروغ میں سست رفتاری اور افراط زر کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
آئی ایم ایف کی ٹیم کی پاکستان سے روانگی کے فوراً بعد پاکستان کے روپے کی شرح قیمت میں تیزی سے کمی ہوئی اور ڈالر کی قیمت 135 روپے تک پہنچ گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ قرضہ ملنے سے پہلے ہی پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی ٹھان لی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس کا اعلان موخر کر دیاگیا۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے یہ پرانا مطالبہ بھی دہرایا ہے کہ سرکاری کمپنیوں کی جلد از جلد بڑے پیمانے پر نج کاری کی جائے۔ یہ مطالبہ 2013 میں بھی کیا گیا تھا جب نواز شریف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے 6 ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کا قرضہ مانگا تھا۔ لیکن جب اقتصادی حالات قدرے بہتر ہوئے تو نواز شریف کی حکومت نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔
اب تحریک انصاف کی حکومت کو 12 ارب ڈالر کا قرضہ درکار ہے، جو نواز شریف کی حکومت کے قرضہ سے دوگنا ہے۔ لا محالہ اس کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط بہت زیاہ کڑی ہوں گی۔ ابھی تو صرف، پاکستانی روپے کی شرح قیمت میں تخفیف، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ اور نج کاری تیز تر کرنے کی شرائط سامنے آئی ہیں۔ لیکن پس پردہ آئی ایم ایف کی طرف سے اس سے کہیں زیادہ کڑی شرائط پیش کی جارہی ہیں۔ ان میں ٹیکسوں میں تیزی سے اضافہ اور درآمدی اشیاء پر محصول کی شرح میں اضافے کی شرائط ہیں۔ ان شرائط میں ایک اہم شرط سی پیک کے منصوبے پر نظر ثانی کی ہے اور پاکستان کو خبردار کیا جارہا ہے کہ وہ چین سے قرضہ لینے اور چین کی سرمایہ کاری کے سلسلے میں احتیاط سے کام لے۔ اس کے پیچھے دراصل امریکا کا دباؤ ہے جسے آئی ایم ایف میں سب سے زیادہ، سولہ فی صد ووٹنگ رائٹس حاصل ہیں دوسرے معنوں میں اس کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔
مالی قرضوں کی امداد کے بارے میں آئی ایم ایف کے اتنے گن گائے جاتے ہیں کہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک دراصل دوسری عالم گیر جنگ کے فوراً بعد امریکا اور مغربی ممالک کے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے اس وقت قائم کیے گئے تھے جب عالمی کساد بازاری کے بحران کی وجہ سے کرنسی کی شرح قیمت میں اتھل پتھل نے مغربی ممالک کی کرنسی کو خطرے میں ڈال دیا تھا اور ترقی پزیر ملکوں کو دیے گئے بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ اس مقصد کے لیے پہلے عالمی بینک نے بغیر سود کے قرضے مالی امداد کی صورت میں جاری کیے اور جب ترقی پزیر ملکوں کی معیشت بہتر ہوئی تو سود کا بوجھ ان پر لاد دیا گیا۔
1945 میں جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ قائم ہوا تھا تو اس وقت اس کے اراکین ممالک کی تعداد 29 تھی لیکن جوں جوں اس کے مالی تسلط کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اس کے اراکین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور اب اس کے اراکین کی تعداد 189 ہے۔ بیش تر ماہرین معاشیات کے نزدیک ترقی پزیر ممالک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مالی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں ہمارے حکمران بڑھ چڑھ کر اپنے عوام اور ساری دنیا کے سامنے بغلیں بجاتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ہمیں قرضہ دینا منظور کیا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ درحقیقت اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم اپنی معیشت کو سنبھالنے اور صحیح خطوط پر اس کا انتظام کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں اور دراصل ہماری معیشت کی بقا صرف آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں اور اس کے قرضوں پر منحصر ہے۔ حکمران یہ نہیں بتاتے کہ اس قرضے کے عوض ہم نے اپنی معیشت کو گروی رکھنے کے لیے کیا کیا وعدے کیے ہیں۔ پچھلے دس برس میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے 49 ارب ڈالر کا قرضہ لیا ہے جس پر اسے بھاری سود کے ساتھ قرضہ واپس کرنا پڑ رہا ہے جو ایک ارب ڈالر سالانہ بنتا ہے اور ایسی کڑی شرائط الگ کہ اس کی معیشت کی چولیں ڈھیلی ہو جاتی ہیں۔
پاکستان 1950میں آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا اور جب سے وہ اس کے چنگل میں برابر پھنستا رہا ہے۔ پچھلے بیس سال سے پاکستان کی معیشت اور اس کی مالی پالیسی آئی ایم ایف کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ بہت کم پاکستانیوں کو اس کا علم ہوگا کہ 1988 سے 2009 تک اسٹیٹ بینک پاکستان کے تمام گورنر اس عہدے پر فائز ہونے سے پہلے آئی ایم ایف کے کل وقتی ملازم اور مشیر رہ چکے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو تعجب ہوتا تھا جب ڈاکٹر یعقوب، ڈاکٹر عشرت حسین، اور ڈاکٹر شمشاد اختر آئی ایم ایف اور عالمی بینک میں بڑی بڑی تنخواہوں والے عہدے چھوڑ کر اسٹیٹ بینک پاکستان کے گورنر کا عہدہ قبول کر رہے تھے، یہ سلسلہ دراصل منظم طور پر پاکستان کی مالی اور اقتصادی پالسیوں پر اثر انداز ہونے اور انہیں اپنی مالی ہتھکڑیوں میں جکڑنے کے لیے شروع کیا گیا تھا اور اس کا مقصد پاکستان کی معیشت اور مالی نظام کو آئی ایم ایف کے نظریہ کے مطابق ڈھالنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ بیس برس سے پاکستان کی مالی پالیسیاں عین آئی ایم ایف کے خطوط پر وضع ہوتی رہی ہیں اور سارا زور، خوراک کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، پانی، بجلی اور گیس کی شرح میں اضافہ، پاکستان کی کرنسی کی شرح قیمت میں تخفیف، سود کی شرح میں اضافہ، زر اعانت (Subsidy) کے خاتمے، بڑے پیمانے پر سرکاری صنعتوں، بینکوں اور سرکاری تجارتی اداروں کی نج کاری، ملک کی صنعتوں کو کم سے کم حکومت کے تحفظ پر رہا ہے۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی دلدل میں ایسا دھنس گیا ہے کہ اس میں سے نکلنا محال ہے اور اگر پاکستان اس دلدل سے نکلنے کی کوشش بھی کرے تو عالمی بینک اور دوسرے مالی ادارے اسے اس بری طرح سے گھسیٹیں گے کہ اس کا اس سے نجات حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ ہنگری اور بوٹسوانا، آئی ایم ایف سے نجات حاصل کر کے بغیر بیڑیوں اور بیساکھیوں کے اپنے پیروں پر کھڑ ے ہیں۔ پاکستان بھی اس چنگل سے آزاد ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت معیشت کے بحران سے نکلنے کے لیے بارہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان یہ رقم چین، سعودی عرب اور اسلامی ترقیاتی بینک سے حاصل کر سکتا ہے۔ اگر پاکستان نے اس وقت آئی ایم ایف کے قرضہ کا پھندا اپنے گلے میں ڈالا تو یہ اس لیے جان لیوا ثابت ہوگا۔ اس پھندے سے بچنے کے لیے شرط یہ ہے کہ پاکستان ہمت، عزم اور حوصلہ سے کام لے۔ اپنے بے پناہ افرادی اور قدرتی وسائل پر بھروسا کرے اور عوام، مغرب کی چمک دمک سے مرعوب اپنے ذہن کو چھٹکارہ دلا کر۔ قناعت اور کفایت شعاری کی سادہ خوشحال زندگی بسر کریں۔