ایک جسٹس کی برطرفی

425

سپریم جوڈیشل کونسل یا عدالتی معاملات کے بالا تر ادار ے نے عدالت عالیہ اسلام آباد کے سینیر جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ دیا اور صدر مملکت نے فوری طورپر اس کی توثیق بھی کردی جیسے وہ انتظار میں بیٹھے تھے ورنہ حتمی فیصلے کے لیے جو درخواستیں صدر کے پاس جاتی ہیں ان کا فیصلہ اتنی جلدی نہیں ہوتا۔ وزارت قانون نے جسٹس شوکت عزیز کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔ اور عجلت میں سارا معاملہ نمٹا دیا گیا۔ فیصلہ چوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے اس لیے گمان یہی ہے کہ تمام پہلوؤں پر غور کیا گیا ہوگا اور شوکت عزیز صدیقی کو اپنی صفائی کا پورا موقع بھی دیا گیا ہوگا۔ جسٹس شوکت نے 21جولائی 2018ء کو راولپنڈی بار سے جو خطاب کیا تھا اس میں عدلیہ پر ایجنسیوں کے دباؤ کی بات کی تھی اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو بھی ملوث کیا تھا کہ آئی ایس آئی ان پر دباؤ ڈال کر فیصلے کرواتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے سخت نوٹس لیتے ہوئے ان کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ ہم کوئی قانونی ماہر تو نہیں ہیں لیکن جب چیف جسٹس خود ایک فریق بن گئے تھے تو کیا یہ مناسب تھا کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی کرتے؟ شوکت عزیز صدیقی پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے منصب کی خلاف ورزی کی چنانچہ انہیں آئین کی دفعہ (6) 209 کے تحت عہدے سے ہٹایا جائے۔ ایک بڑے اور اہم فیصلے میں اتنی تیزی قابل تعریف ہے ورنہ تو ہماری عدلیہ میں چوری کے کسی مقدمے کا فیصلہ بھی اتنی تیزی سے نہیں ہوتا اور یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی کے مرجانے کے بعد اس کی باعزت رہائی کا حکم جاری ہوتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں پر بھی تو زد پڑ رہی تھی۔ شوکت عزیز صدیقی نے چیمبر میں اپنے موقف کی وضاحت بھی کی جو قبول نہیں کی گئی۔ جوڈیشل کونسل نے قرار دیا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج بننے کا اہل ہی نہیں تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اب تک جو فیصلے کیے وہ اس کے اہل نہیں تھے۔ چنانچہ کیا ان کے تمام فیصلے کالعدم ہو جائیں گے کہ ایک نا اہل جج کے فیصلے ہیں؟ شوکت عزیز صدیقی نے بار سے خطاب میں بہت کھل کر باتیں کی تھیں اور کہا تھا کہ ایجنسیاں عدالتی امور میں مداخلت کرتی ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ کون کون چیف جسٹس سے ملاقات کر کے فیصلے کرواتا ہے۔ میاں نوازشریف کے خلاف فیصلے پر بھی اعتراض کیا تھا۔ انہوں نے اس خطاب میں یہ پیشگوئی بھی کردی تھی کہ انہیں معلوم ہے ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ ان کی برطرفی کے فیصلے کے بعد ان کے الزامات کی گونج پھر سنائی دے گی اور قانونی حلقوں میں نئی بحث چھڑ جائے گی۔ شوکت عزیز صدیقی نے کہا تھا کہ وقت آنے پر وہ اپنے الزامات کا ثبوت بھی پیش کریں گے چنانچہ اب جبکہ انہیں برطرف کیا جا چکا ہے وہ اپنے الزامات کا ثبوت دیں لیکن کیا وہ ایسا کرسکیں گے اور ان کے ثبوت کیسے سامنے آئیں گے۔ شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سی ڈی اے کے ایک افسر نے یہ شکایت بھی درج کرارکھی ہے کہ انہوں نے اپنے سرکاری مکان کی تزئین وآرائش کے لیے خلاف ضابطہ 80لاکھ روپے خرچ کرائے ہیں ۔ اس کے جواب میں شوکت عزیز نے دوسرے ججوں کی شان و شوکت اور تزئین و آرائش کے اخراجات کی نشاندہی کی تھی۔ شوکت عزیز صدیقی نے جو انکشافات کیے تھے انہیں عوام کے بڑے حلقے میں پزیرائی حاصل ہوئی تھی تاہم کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جنہیں ان کی صاف گوئی ناگوار گزری تھی۔ انہوں نے قادیانیوں کے خلاف سخت ریمارکس دیتے ہوئے مرتد ہونے والے 10 ہزار افراد کی فہرست بھی طلب کی تھی۔ سیاسی معاملات میں ایجنسیوں کا عمل دخل کوئی راز نہیں ہے۔ شوکت عزیز صدیقی یہ تک کہہ گئے کہ نواز شریف اور مریم صفدر کو الیکشن تک اندر رکھنے کا فیصلہ بھی خفیہ ایجنسی اور چیف جسٹس کے درمیان ملاقات کانتیجہ تھا۔ اتنی بڑی بات پرایجنسیوں کی برہمی تو بنتی ہے۔ شوکت عزیز صدیقی کے بعض تبصرے بڑے سخت بھی ہوتے تھے۔ 27فروری ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کہا تھا کہ عدالت نے ویلنٹائن ڈے پر پابندی تو نہیں لگائی، حسن نثار یا امتیاز عالم اپنے گھروں میں روز ویلنٹائن ڈے منائیں، مگر کیا آپ ویلنٹائن ڈے کو ہمارے اوپر تھوپنا چاہتے ہیں ، امتیاز عالم اپنا نام ویلنٹائن عالم رکھ لیں۔ وہ عدالت کو بیمار ذہن کہیں گے تو کیا عدالت خاموشی تماشائی بنی رہے گی، وہ نشے میں ہوتے ہیں ۔ اب ایسے تبصروں پر مغربی لعنت کے شیدائی ضرور برہم ہوں گے لیکن پاکستان کا مذہب پسند اور دین دار طبقہ ضرور ان کو سراہے گا۔ ایسے لوگ جن کے ہاتھ میں قلم بھی ہے وہ اس موقع پر اپنے قلم کو تلوار بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔ حساس ادارے کے خلاف تقریر پر سزا سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ مقدس گایوں کو سینگوں سے پکڑنا خطرناک ہے۔