بڑھتی ہوئی مہنگائی آج کی حقیقت ہے کیا تنخواہ دار اور پنشن والے اور کاروباری لوگ سب کی آمدنی بے اثر ہوتی چلی جارہی ہے۔ حکومت مسلسل کہہ رہی ہے کہ وہ معاشی بدحالی پر قابو پانے کے سلسلے میں کوششوں میں مصروف ہے غالباً وزیر خزانہ اسی لیے انڈونیشیا گئے ہوئے ہیں تاکہ آئی، ایم، ایف سے بیل آؤٹ پیکج لیا جاسکے، یعنی قرض اتارنے کے لیے مزید قرض‘ یہی مسلم لیگ (ن) پر تحریک انصاف کا اعتراض تھا، اب وہ خود بھی اسی راہ پر چل نکلی ہے، ہر روز شائع ہونے والے اخبارات کی شہہ سرخیاں اور ٹی وی چینلوں کی چیختی چنگاڑتی خبریں ہمیں بتا رہی ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم اعلان تو کر رہی ہے تاہم عوام کو عملی طور پر ابھی تک کوئی فائدہ نہیں ہوا حتیٰ کہ حکومت کے وزراء کا اپنے محکموں پر بھی کنٹرول نظر نہیں آرہا بعض نوجوان وزرا کچھ زیادہ متحرک ہو کر قواعد و ضوابط ہی کو نظر انداز کرکے مسائل پیدا کررہے ہیں۔
وزیر مملکت شہر یار آفریدی نے رات کو ایک تھانے پر چھاپا مار کر کئی مسائل پیدا کردیے ہیں، پولیس افسر اس پر قواعد کا حوالہ دے رہے ہیں ایک اور معاملہ نیا سامنے آیا ہے کہ انسپکٹر جنرل پولیس کے تبادلے پر حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے آگئے ہیں۔ راولپنڈی کے ریجنل پولیس آفیسر کا موقف ہے کہ اگر وزیر مملکت کو کوئی ایسا معائنہ کرنا ہے تو وہ حکام کو آگاہ کرکے آئیں شہریارآفریدی وزیر مملکت برائے داخلہ ہیں‘ وہ پورے نہیں آدھے وزیر ہیں انہوں نے راولپنڈی میں پولیس تھانے پر چھاپا مارا جو پنجاب پولیس کا دائرہ اختیار ہے، اس کے بعد انہوں نے ایک ایس، ایچ، او اور ایک سب انسپکٹر کو معطل کرنے کا بھی حکم دیا اور ان کو صبح اپنے دفتر میں بھی طلب کرلیا، متعلقہ پولیس والے اپنے اعلیٰ افسر آر، پی، او کے پاس حاضر ہوگئے بہتر عمل یہ ہے کہ تحریک انصاف کے وزرا اور نوجوان حقائق اور معروضی حالات کو سمجھیں اور یہ یقین کرلیں کہ حکومت ان کی ہے اور وہ اپوزیشن میں نہیں، ان پر اب ذمے داریوں کا بوجھ ہے تو ان کو اپنے اپنے اختیارات کا جائزہ بھی لینا ہوگا بلکہ قانون و قواعد بھی یاد کرنا چاہئیں۔ ان مشکل حالات میں ان کو اپنی حکومت اور وزیر اعظم کے لیے مشکلات نہیں پیدا کرنا چاہئیں حکومت نے اپنے پہلے سو دنوں کے پہلے نصف مکمل ہونے پر کم آمدنی والے طبقے اور غریب عوام کو پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے ہاؤسنگ ایک ایسی انڈسٹری ہے جس سے ساراملک چلتا ہے اور چالیس صنعتیں براہ راست ہاؤسنگ کے شعبے سے منسلک ہیں جبکہ متعدد دیگر صنعتیں بالواسطہ طور پر رواں ہوتی ہیں اس منصوبے سے شرح نمو میں اضافہ ہوگا صنعت کا پہیہ چلے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے جس طرح کا اعلان کیا گیا ہے اس سے توقعات کیسے پوری ہوں گی؟ حکومت کہہ رہی ہے کہ نوجوان خود تعمیراتی کمپنیاں قائم کریں اور بینکوں سے قرض لیں۔ بیرونِ ملک سے ایک کمپنی نے اس شعبے میں 20۔ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے یہ کمپنی کس کی ہے اور رقم کیسے اور کس شرط پر واپس لے گی اس بارے میں ابھی کچھ علم نہیں ہے۔
نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی نوے روز میں قائم کردی جائے گی ایک ٹاسک فورس اس منصوبے کو دیکھے گی کچی آبادیوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے اگر یہ سب کچھ ایک ہاؤسنگ مافیا کے سپرد ہوا تو سب کچھ بہہ جائے گا اور حکومت بھی تنکے کی مانند بہہ جائے گی وزیر اعظم کے اس اعلان پر بروقت تبصرہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے آیا ہے انہوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ پچاس لاکھ گھر بنانا خالہ جی کا گھر نہیں صرف اعلان سے پچاس لاکھ گھر نہیں بنیں گے ان کے لیے وقت اور پیسہ چاہیے کبوتروں کا پنجرہ بنایا جائے تو بھی دیکھا جاتا ہے۔ حالات بہت خراب ہیں ڈالر اوپر جارہا ہے جس حساب سے مہنگائی بڑھ رہی ہے لوگ بہت پریشان ہیں، پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز بہت بڑھ گئے ہیں، کچی آبادیوں کی حالت بہتر بنائیں وزیراعظم خود جاکر حالات دیکھیں بطور چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم کو معلومات ہونی چاہئیں کہ کچی آبادیوں میں کتنے مسکین رہتے ہیں چیف جسٹس نے کچی آبادیوں سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پالیسی طلب کرلی، چیف جسٹس کا کہنا تھا معلوم نہیں پچاس لاکھ گھر کب بنیں گے لیکن فوری طور پر ان لوگوں کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم نے انکشاف کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم ایک صاحب کی کمپنی اس شعبے میں 20۔ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے اگرچہ انہوں نے نام نہیں بتایا لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صاحب ضرور ان کے دوست ہوسکتے ہیں جو مانچسٹر میں چیف جسٹس کی موجودگی میں ڈیم فنڈریزنگ کی تقریب بھی منعقد کرنا چاہتے ہیں اور جو کابینہ کے اجلاسوں میں بھی دیکھے جاتے رہے ہیں اس سلسلے میں بعض سوالات اہمیت کے حامل ہیں جن کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔