قتل طفلاں

270

 

 

ایک تقریب میں صاحب خانہ کی بچی کھیلتی ہوئی مہمان کے پاس آئی۔ ٹافی دکھاتے ہوئے مسکرا کر بولی: ’’ٹافی کھائیں گے؟‘‘ مہمان نے ہاں میں جواب دیا اور منہ کھول دیا۔ بچی نے اطمینان سے ٹافی کا ریپر کھولا اور ٹافی مہمان کے بجائے اپنے منہ میں ڈال کر چٹخارے لیتی ہوئی بولی: ’’مزے کی ہے نا!‘‘۔
وہ دور تو نہیں رہا جب بچے کہا کرتے تھے ’’دو چٹیوں والی حکیم جی کی سالی‘‘ پر آج بھی قہقہہ بار بات کرنے میں بچوں کا جواب نہیں۔ آپ افسردہ ہوں بچے آپ کو ہنسنے پر مجبور کردیں گے۔ رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آپ کے اردگرد رقصاں ہوجائیں گی۔ کسی علاقے میں ایک بے حد خوبصورت باغ تھا۔ پھولوں سے لدا درختوں سے سجا۔ گہری سبز گھاس، رنگ برنگ چہکتے پرندے۔ دن کو تتلیاں، رات کو جگنو اس باغ کو دیکھنے آتے تو یہیں کے ہورہتے۔ یہی حال بچوں کا تھا۔ علاقے کے تمام بچے گیٹ کھلتے ہی بے تابی سے باغ میں داخل ہوتے تو کھانا پینا، گھر جانا سب بھول جاتے۔ بچوں کی اچھل کود، شرارتوں اور قہقہوں میں پھول اور تتلیاں بھی اپنے رنگوں سمیت شامل ہوجاتیں۔ باغ کا مالک اس صورت حال سے پریشان تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بچے اس کے حسین باغ کو برباد کررہے ہیں۔ ایک دن تنگ آکر اس نے باغ کا دروازہ بند کردیا۔ بچوں کے باغ آنے پر پابندی لگادی۔ بچے صبح ہوتے ہی باغ آتے لیکن بند دروازہ دیکھ کر غم زدہ واپس چلے جاتے۔ تھوڑے دن بعد مالک نے محسوس کیا تتلیوں اور جگنوؤں نے باغ میں آنا بند کردیا ہے۔ پھول بھی اب کم ہی کھلتے ہیں۔ پرندے نہ جانے کہاں چلے گئے۔ کچھ ہی عرصے میں باغ اجڑ کر رہ گیا۔ مالک اس صورت حال پر بہت پریشان تھا۔ سارے پودے جل گئے تھے۔ پھول تو جیسے باغ میں کبھی تھے ہی نہیں۔ اس نے افسردگی سے باغ کو دیکھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ اس نے دیکھا کہ باغ کی دیوار کے ساتھ ایک چھوٹے سے پودے پر ایک بہت خوب صورت پھول لہک رہا ہے۔ اس نے جھک کر پھول کو دیکھا۔ دیوار کے دوسری طرف سوراخ سے ایک بچہ پھول کو دیکھ رہا تھا۔
جگنوؤں اور تتلیوں کے تعاقب کا دوسرا نام بچپن ہے۔ ایک چینی شاعر کا بچہ فوت ہوگیا۔ اس نے اپنے بچے کا ایک سطری مرثیہ لکھا: ’’وہ آج تتلیوں کے تعاقب میں دور نکل گیا ہے‘‘۔ لیکن لگتا ہے ہمیں بچوں کی آنکھوں میں چمکتے جگنوؤں کو دیکھنے کی خواہش رہی ہے اور نہ ان کی خواہشوں کی تتلیاں پکڑنے کی۔ بچوں کے بارے میں ایک بیزاری کا رویہ ہے۔ بچے کم ہی اچھے۔ ہر شخص چاہتا ہے اس کا دامن پھولوں سے خوشیوں سے بھرا رہے لیکن بچوں کے باب میں ہم چاہتے ہیں ہمارے دامن میں ایک دو پھول ہوں ایک دو خوشیاں ہوں۔ 29اگست 2018 کو چیف جسٹس آف پاکستان محترم ثاقب نثار نے کہا کہ عوام کو بتانا ہوگا کہ زیادہ بچے ہونا اچھا عمل نہیں ہے۔ آبادی کے حوالے سے تبدیلی نہیں آرہی۔ حکومت حل پیش کرے۔ انہوں نے یہ بات آبادی کے حوالے سے ایک ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہی تھی۔
یہ مغرب کی سوچ ہے، سیکولر فکر ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ جان مارشل مسلمانوں کی عظیم آبادی سے پریشان اور مضطرب تھے۔ مسلمانوں کی بڑی آبادی کے بارے میں سی آئی اے نے انہیں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی۔ جس سے گھبرا کر انہوں نے 1947 میں دنیا کی آبادی کم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ ہدف مسلمان تھے۔ فیملی پلاننگ کے اس منصوبے کو پیش کرنے کی دیر تھی کہ ان گنت اہل علم اور صاحبان تحقیق کے ایسے نظریے، مضامین، تجزیے اور رپورٹیں منظر عا م پر آنے لگیں کہ اگر دنیا کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو ایک دن ایسا آئے گا جب دنیا انسانوں سے بھرا ہوا ایک ایسا کرہ ہوگی جس میں انسان ہی انسان ہوں گے لیکن دنیا کے وسائل ان کی خوراک کے لیے ناکافی ہوں گے۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے کوکھانے پر مجبور ہوں گے۔ اس نظریے کی، اس ممکنہ پریشانی کی دنیا بھر میں اس قدر تشہیر کی گئی کہ پوری دنیا آبادی میں اضافے کے خوف کا شکار ہوگئی۔ طرح طرح کی سائنسی تحقیقات، مانع حمل ادویات، خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام اور میڈیا پر بے پناہ تشہیری مہمات دنیا بھر میں ظہور ہونے لگیں۔ وہ مشرق، وہ مسلمان جہاں بچوں کے بارے میں اس اندازسے سوچا جا تا تھا
کس طرح ڈوبنے دیتے مجھے میرے بچے
زندگی ایک سمندر ہے جزیرے بچے
اب ان مسلمان معاشروں میں جگہ جگہ فیملی پلاننگ پر غور ہونے لگا۔ یہ مہمات بچوں کے قتل عام کے مترادف تھیں۔ یہ قتل طفلاں کی منادی تھی جس میں بچوں کو وہ سہولت بھی حاصل نہ تھی جو سیدنا موسیٰؑ کو حاصل تھی
قتل طفلاں کی منادی ہورہی ہے شہر میں
ماں مجھے بھی مثل موسیٰ تو بہادے نہر میں
اس وسیع تشہیر کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں جہاں کم بچوں کے ہونے کو مرد کی کمزوری باور کرتے ہوئے مذاق کا موضوع بنایا جاتا تھا اب وہاں زیادہ بچوں کی پیدائش ٹھٹوں کا عنوان بن جاتی ہے ’’میاں بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے کیا‘‘۔ خاندانی منصوبہ بندی پر چین میں سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ 1979سے وہاں سرکاری طور پر ایک بچے کی پالیسی کو انتہائی سختی سے نافذ کیا گیا تھا۔ تاہم گزشتہ ایک دہائی سے مغربی اقوام کے ساتھ ساتھ مشرقی اقوام بھی آبادی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے معیشت اور معاشرتی میدانوں میں منفی اثرات کا شکار ہونا شروع ہوگئیں۔ ان کے پاس قابل لحاظ تعداد میں نوجوان ہی نہیں رہے جو معیشت کا بوجھ اٹھا سکیں اور دیگر معاشرتی ذمے داریاں پوری کرسکیں۔ اب کئی مغربی ممالک اپنے عوام کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی تر غیب دے رہے ہیں۔ حوصلہ افزائی کے لیے عوام کو مختلف طرح کے لالچ دیے جارہے ہیں۔ چین نے بھی ایک بچے کی پالیسی 2013 میں ترک کردی کیوں کہ ایک بچہ ماں باپ کے ساتھ ساتھ دادا دادی اور نانا نانی کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کافی نہیں۔ وہاں بھی بوڑھوں کا تناسب بڑھنا اور نوجوانوں کا کم ہونا شروع ہوگیا ہے۔
ہمارے چیف جسٹس صاحب تو ادراک نہ کرسکے لیکن ترکی کے صدر طیب اردوان اس سازش کو خوب سمجھتے ہیں۔ ایک تقریر میں انہوں نے کہا تھا ’’فیملی پلاننگ اسلامی روایات کے منافی ہے۔ کم بچوں کی فکر مسلمان خاندان کو زیب نہیں دیتی۔ ہم اپنی اولاد اور آبادی میں اضافہ کریں گے۔ کسی بھی مسلمان خاندان کو فیملی پلاننگ نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ وہ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں نوجوان اور تعلیم کے موضوع پر منعقد ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ ایک قریبی ساتھی کے بیٹے کی شادی کے موقع پر بھی دولہا اور دلہن کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’ضبط ولادت ترکی کی نوجوان نسل کی تعداد کو بڑھانے کی خواہش کے منافی ہے۔ ایک یا دو بچے کافی نہیں ہیں۔ ہماری قوم کو مضبوط بنانے کے لیے ہمیں مزید نوجوان نسل کی ضرورت ہے۔ ہمیں ترکی کو جدید تہذیب کی سطح سے بلند کرنے کے لیے بھی نوجوان نسل درکار ہے۔ مخالفین برسوں سے ضبط ولادت کی غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بچے کا مطلب ہے تنہائی، دو کا مخاصمت اور تین کا توازن۔ چارکا مطلب ہے کافی اور اس سے زیادہ ہوں تو اللہ باقی کی حفاظت کرے۔‘‘ خیال رہے کہ ترک صدر خود چار بچوں کے باپ ہیں۔
رسالت مآب ؐ کی خیرہ کن احادیث اور اسلامی تعلیمات، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی قدرت سے بیگانہ تہذیب نو کی اس آفت کے مقابل مسلمانوں کی مدد گار رہیں لیکن مغرب کو اس نظریے نے اس طرح برباد کیا ہے کہ آج ترقی یافتہ ممالک اپنی تہذیبوں کے خاتمے کے خوف میں مبتلا ہیں۔