درآمدکنندگان کو30دسمبر تک پچھلے شرائط و ضوابط پر درآمدات جاری رکھنے کی اجازت دی جائے
کراچی چیمبر آف اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کی جانب سے مختلف اجناس بشمول دالوں کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں غیر ضروری رکاوٹیں ڈالنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ سے درآمدکنندگان کو ڈیمرج اور ڈیٹینشن کی مد میں بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔
انہوں نے پاکستان پلسز امپورٹرز ایسوسی ایشن ( پی پی آئی اے) کے ایک وفد کے ساتھ اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ متعلقہ درآمدکنندگان بغیر کسی مشکل کے کئی برسوں سے ان اجناس کی درآمد کررہے تھے لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران محکمہ پلانٹ پروٹیکشن نے فائیٹو سینیٹری سرٹیفیکیٹ پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہوا ہے جس میں نان جی ایم او( جینیٹیکلی موڈیفائیڈ کراپ) کو لازمی تحریرہو۔یہ سراسر ایک غیر ضروری مطالبہ ہے کیونکہ پاکستان پلانٹ کورانٹائن ایکٹ1976اور پاکستان کورانٹائن قوانین1967 میں بھی نان جی ایم او سے متعلق کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پچھلے کئی سالوں سے دالیں و دیگر اجناس درآمد کرتا رہاہے جس کی وجہ ان اجناس کی بے انتہا طلب اور محدود مقامی پیداوار ہے۔درآمدکنندگان کو مقامی مارکیٹوں میں ضروری اجناس کی بلاتعطل فراہمی پر سراہنے کے بجائے اس قسم کی رکاوٹیں ڈال کر انہیں سزا دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے وزارت خوراک و زراعت سے ضروری ترامیم یا کسی قسم کی وضاحت کرنے کی درخواست کی تاکہ متاثرہ درآمدکنندگان کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔
انہوں نے کہاکہ برآمدی ممالک کے کورانٹائن ڈپارٹمنٹس کو بھی ہدایت کی جائے کہ وہ فائیٹو سینیٹری سرٹیفیکیٹ میں نان جی ایم او کو ضرور تحریر کریں کیونکہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ صرف چند ہی ممالک ایسے ہیں جو نان جی ایم او کو اپنے سرٹیفیکیٹ میں تحریر کرتے ہیں جبکہ کئی ممالک اس کا کوئی ذکر نہیں کرتے جس کی وجہ سے پاکستانی درآمدکنندگان کے لیے یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ وزارت خوراک و زراعت کے ماتحت محکمہ پلانٹ پروٹیکشن کی اس شرط کو پورا کرسکیں۔
انہوں نے اس سنگین مسلئے کو حل کرنے کے لیے حکومت پر زور دیا کہ اس ضمن میں فوری اقدامات عمل میں لائے اور جب تک متعلقہ قوانین میں ترامیم کرکے انہیں بہتر نہیں بنایا جاتادرآمدکنندگان کو پچھلے قواعد و ضوابط کے مطابق دسمبر2018تک مختلف اجناس درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔دریں اثناء برآمدی ممالک کے کورانٹائن ڈپارٹمنٹس سے بھی درخواست کی جائے کہ وہ نان جی ایم او کا تذکرہ فائیٹو سینیٹری سرٹیفیکیٹ میں ضرور کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو درآمدکنندگان کو کسی اور کی نااہلی اورغفلت کا ذمہ دار نہ ٹہرایا جائے۔